1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گرد تنظیموں کو مسلم دنیا سے باہر پھینک دیں گے، ترک صدر

بینش جاوید
17 نومبر 2016

ترک صدر کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو مغربی دنیا کی حمایت حاصل ہے، ترکی ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے بقول دہشت گردوں کو دنیائے اسلام سے باہر پھینک دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2SpVN
Pakistan Islamabad türkischer Präsident Erdogan Rede im Parlament
تصویر: picture-alliance/AA/M.Aktas

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے پاکستان میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے مابین صرف سفارتی ہی نہیں بلکہ انتہائی وسیع پیمانے پر تعلقات قائم ہیں۔ انہوں نے کہا،’’ پاکستان میں جمہوریت کی مثال دنیا بھر کے لیے ایک ماڈل ہے۔‘‘ انہوں نے اس برس ترکی میں ناکام فوجی بغاوت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 15جولائی کو ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش کے خلاف بالکل واضح پیغام دیا تھا۔ ترک صدر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پاکستان اور ترکی برادر ممالک ہیں۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول سانحہ پر ترکی میں ایک روزہ سوگ منایا گیا تھا۔

اسلام اور دہشتگردی کا کوئی جوڑ نہیں   

ترک صدر نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ داعش اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور ترکی ان کے خلاف اندرون ملک اور شام میں کارروائیاں کر رہا ہے۔ ترک صدر کے بقول، ’’اسلام ایک پر امن مذہب ہے۔ اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بے گناہ انسانوں کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور دہشت گرد معصوم لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔‘‘ ترک صدر نے مغربی دنیا کو تنقید نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’مغربی دنیا ان دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہے، داعش کے پاس جو اسلحہ ہے، وہ مغربی ممالک کی عنایت ہے، اس تنظیم کو مغربی دنیا کی حمایت حاصل ہے۔‘‘رجب طیب ایردوآن کے مطابق پاکستان، افغانستان، شام اورعراق دہشتگردی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

Pakistan Türkei Besuch Präsident Recep Tayyip Erdogan - Plakat in Lahore
ترک صدر کسی ملک کے وہ واحد سربراہ ہیں جنھوں نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے تیسری مرتبہ خطاب کیا ہےتصویر: picture-alliance/Zuma Press/R.S. Hussain

گولن تحریک

 انہوں نے اپنے خطاب میں مبلغ  فتح اللہ گولن کی تحریک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گولن امریکا میں بیٹھ کر پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ ترک صدر نے کہا، ’’فتح اللہ گولن کی تحریک ایک دہشت گردانہ تحریک ہے، گولن نے اپنی سرگرمیوں کو 120 ممالک میں جاری رکھا ہوا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک سو آٹھ اساتذہ اور ان کے اہلخانہ کو بیس نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ اساتذہ پاک ترک اسکول نیٹ ورک میں پڑھاتے ہیں۔ اس اسکول پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کا تعلق فتح اللہ گولن تحریک سے ہے۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف اسکول نیٹ ورک نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ ترک صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب سے قبل پاکستان کے وزیر اعظم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا،’’ گولن تحریک سے منسلک کسی بھی تنظیم کو پاکستان میں جگہ نہیں ملے گی۔ پاکستان اور ترکی کے مابین جاری تعاون کے نتیجے میں ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘ ترک صدر نے کہا کہ وہ اس معاملے پر متحد ہو کر فیصلہ لینے پر پاکستانی انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔

Pakistan Türkei Besuch Präsident Recep Tayyip Erdogan in Islamabad mit Muhammad Nawaz Sharif
ترک صدر نے دہشت گردوں کو اسلام کا دشمن ٹہرایا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Press Information Department

پاکستان ترکی تعلقات

ترک صدر نے پاک ترک تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، عسکری اور اقتصادی روابط مزید مضبوط ہونے چاہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو ایک ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا۔ ان کے بقول عنقریب ان دونوں ممالک کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن اداروں کے مابین معاہدے کے بعد پاکستان کے پانچ سو طلبہ ترکی میں اسکالرشپ کے ذریعے پی ایچ ڈی کی سطح پر تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ ترک صدر نے کہا دونوں ممالک کے درمیان صحت اور دفاع کے شعبوں میں بھی تعاون بڑھے گا۔

رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ ترکی مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے۔ اپنے خطاب کے دوران ترک صدر نے کہا، ’’ہم کشمیری بھائیوں کے درد سے آگاہ ہیں۔ ترکی حال ہی میں کشمیر میں ہونے والے واقعات پر دکھی ہے۔ ترکی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی چھت تلے حل کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘ ترک صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترکی پاکستان اور افغانستان کے بہتر تعلقات کا حامی ہے، دونوں ممالک کے  اچھے روابط اس خطے کے امن کے لیے ضروری ہیں۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پارلیمانی لیڈرز کے ہمراہ پاکستانی افواج کے سربراہان بھی شریک تھے۔