دُنیا بھر میں کرسمس کی تقریبات میں روایتی جوش و خروش
25 دسمبر 2008مغربی اُردن میں حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کا آبائی قصبہ بیت لحم مسیحی دُنیا کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ وہاں گذشتہ نصف شب سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ کرسمس کی خصوصی دعائیہ تقریب منعقد کی گئی، جس میں ہزارہا مسیحیوں کے ساتھ ساتھ کئی مسلمان بھی شریک ہوئے۔ مہمانوں میں فلسطینی خود مختار انتظامیہ کے صدر محمود عباس بھی شامل تھے۔
دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یروشلم کے نئے کیتھولک پادری آرچ بشپ فواد طوال نے کہا:’’جنگ کے ذریعے امن حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جیلیں استحکام کی ضامن نہیں ہو سکتیں۔ بلند ترین دیوار بھی سلامتی کو یقینی نہیں بنا سکتی۔ امن نہ جارح کو نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی حملے کا نشانہ بننے والے کو۔ امن خدا کا ایک تحفہ ہے اور خدا ہی امن عطا کر سکتا ہے۔‘‘
اڑسٹھ سالہ فواد طوال کا آبائی وطن اردن ہے اور وہ ایک طویل عرصے تک وَیٹی کن کے سفیر بھی رہے ہیں۔
اِدھر پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم نے روم کے سینٹ پیٹرز چرچ میں جمع ہزارہا زائرین کے ساتھ مل کر دعا کی اور اپنے خصوصی کرسمس پیغام میں دُنیا بھر میں امن اور انصاف پر زور دیا۔ اُنہوں نے خبردار کیا کہ جنگ، دہشت گردی، استحصال اور خود غرضی ڈرامائی نتائج کا باعث بنے گی۔ اِس موقع پر دنیا بھر میں رومن کیتھولک عقیدہ رکھنے والےایک اعشاریہ ایک ارب مسیحیوں کے قائد نے اُردو اور ہندی سمیت چونسٹھ زبانوں میں اپنا روایتی پیغام اُربی اَیٹ اَوربی یعنی شہر اور دُنیا کے نام بھی جاری کیا۔
اِدھر جرمنی میں ہر سال کی طرح اِس سال بھی کرسمس کے موقع پرسربراہِ مملکت ہورسٹ کوہلر نے ایک خصوصی نشری تقریر میں اپنے ہم وطنوں پر زور دیا ہے کہ وہ عالمگیر مالیاتی بحران کا متحد ہو کر مقابلہ کریں۔
کوہلر نے کہا:’’عالمگیر مالیاتی بحران اور اُس کے اثرات ہمارے لئے باعث تشویش ہیں۔ اتنی بڑی رقوم داؤ پر لگائی گئی ہیں کہ جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے لوگوں کو اپنی بچتی رقوم کی فکر ہے۔ کئی ایک کو اپنی ملازمتیں چھن جانے کا ڈر ہے۔ یہ درست ہے کہ ریاست لوگوں کی ملازمتوں اور اُن کی آمدنی کو محفوظ بنانے کے لئے بھرپور کوششیں کرے گی لیکن ہم تمام جرمن شہریوں کو بھی مل کر محنت کرنا ہو گی اور مجھے یقین ہے کہ ہم کامیابی سے اِن چیلنجوں کا سامنا کر سکیں گے۔‘‘
وفاقی جرمن صدر نے جرمن شہریوں پر زور دیا کہ وہ اپنی زندگیوں میں سادگی اور رواداری اپنائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ بہت پُر اُمید ہیں کیونکہ جرمنی بھر میں لوگوں کے پاس نت نئے تصورات ہیں، اُنہیں عملی شکل دینے کی قوت ہے اور مشکل حالات میں بھی پُر سکون رہنے کی صلاحیت ہے۔