1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دوستی نہیں صرف مفادات‘، جرمنی مسلسل امریکی جاسوسی کا نشانہ

ماتھیاس فون ہائنز/ کشور مصطفیٰ9 جولائی 2015

وکی لیکس ہفتہ وار بنیادوں پر’این ایس اے‘ کی طرف سے جرمنی کی بے پایاں جاسوسی سے متعلق راز افشا کرتا رہتا ہے۔ ایک خود مختار ریاست ہونے کے ناطے برلن کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ڈوئچے ویلے کے ماتھیاس فون ہائن کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1FveO
تصویر: picture-alliance/dpa

ماتھیاس اپنے تبصرے میں تحریر کرتے ہیں: تکنیکی طور پر جو کچھ ممکن ہے کیا جائے گا۔ دوستی اور اتحاد سے قطع نظر۔ کم ازکم اب تو یعنی وکی لیکس کی طرف سے ہونے والے تازہ ترین انکشافات کے بعد جرمنی میں ہر کسی کو چارلس ڈی گال کے یہ الفاظ یاد کرنے چاہییں: ’’ریاستوں کے مابین کوئی دوستی نہیں، محض مفادات ہوتے ہیں‘‘۔ امریکا بظاہر یہی سمجھتا رہا ہے کہ کئی دہائیوں تک جرمنی کے سیاسی طاقت کے محور یعنی سیاست دانوں کے دفاتر کی جاسوسی اُس کے مفاد میں ہے۔ آخر کار منظر عام پر آنے والی اُن 56 ٹیلیفون نمبروں کی ایک فہرست کا تعلق بنیادی طور پر جرمنی کے چانسلر دفتر سے ہی نکلا۔ بون اور برلن میں، میرکل، شرؤڈر اور کوہل کے دفاتر سے۔ یہاں تک کے امریکیوں کو جرمنی کے ٹیلی فون کے مرکزی محکمے سے بھی گہری دلچسپی تھی۔

Bundeskanzlerin Merkel NSA Überwachung Handy
جرمن چانسلر کے موبائل فون کی جاسوسیتصویر: imago/IPON

گزشتہ ہفتے منظر عام پر آنے والی وکی لیکس کی نئی دستاویزات سے ہمیں پتا چلا ہے کہ این ایس اے ایک دہائی تک ٹیلی فون کی 125 لائنوں کی جاسوسی کرتا رہا ہے۔ تاہم یہ تعداد این ایس اے کی طرف سے جاسوسی کی زد میں آنے والی ٹیلی فون لائنز کی اُس تعداد کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس تک اس امریکی ادارے کی رسائی جرمن صوبے بویریا کے دارالحکومت میونخ کے نزدیکی مقام ’باڈ آئیبلنگ‘ میں قائم جرمن فیڈرل اینٹیلیجنس سروس کی مدد سے ممکن ہوئی تھی۔ وہ تعداد تو 125 لائنوں کی تعداد کا کوئی 300 گنا بنتی ہے۔ یعنی قریب چالیس ہزار۔ ان چالیس ہزار ٹیلی فون لائنز کی فہرست عین اُسی چانسلر دفتر میں چھپا کر رکھی گئی ہے جو خود این ایس اے کی جاسوسی کا شکار ہے تاہم امریکا کی جی حضوری اور احترام کی خاطر اس فہرست کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اسے دیکھنے کی سعادت صرف ریٹائرڈ سابق انتظامی جج کُرٹ گراؤلش کو نصیب ہو سکتی ہے جو رواں سال خزاں میں اس بارے میں اپنی پارلیمانی رپورٹ پیش کر سکتے ہیں۔

von Hein Matthias Kommentarbild App
ڈوئچے ویلے کے ماتھیاس فون ہائن

ابھی ایک ماہ پہلے ہی اٹارنی جنرل ہارالڈ رانگے نے چانسلر میرکل کے موبائل ٹیلی فون کی جاسوسی کے بارے میں تفتیشی کارروائی کو یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ اس سلسلے میں موجود دستاویزات کسی عدالتی مقدمے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

ماتھیاس فون ہائن نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ وفاقی جرمن حکومت کے رویے سے یہ تاثر واضح طور پر ملتا ہے کہ وہ امریکا کی جاسوسی سرگرمیوں کے خلاف حقیقی معنوں میں واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کا کوئی ارداہ نہیں رکھتی۔ ادھر امریکا اپنی جاسوسی سرگرمیوں سے اقتصادی نفع بھی اٹھا رہا ہے۔ وکی لیکس کی تازہ ترین رپورٹ میں امریکا کی جانب سے صنعتی جاسوسی کی بھی ٹھوس مثالیں موجود ہیں۔

ماتھیاس مزید تحریر کرتے ہیں، جرمنی کے ضابطہ فوج داری پیراگراف 99 میں انٹیلی جنس ایجنٹ سرگرمی کی سزا موجود ہے، اس کا اطلاق صرف روسی، چینی یا ایرانی ایجنٹوں پر نہیں ، بلکہ امریکی، برطانوی اور فرانسیسی انٹیلی جنس ایجنٹوں پر بھی ہونا چاہئے۔ جرمنی صرف چانسلری میں امریکی سفیر کو طلب کرنے کی بجائے واشنگٹن کو مضبوط سگنل بھیج سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بہت مضبوط پیغام یہ ہو سکتا ہے: ’’ایڈورڈ سنوڈن کے لیے سیاسی پناہ‘‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید