1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دو سالہ بچی کی دماغی ٹیسٹ کے خلاف والدین عدالت جا پہنچے

عاطف توقیر
22 نومبر 2016

امریکی ریاست ورجینیا کے ایک ہسپتال میں یہ جاننے کے لیے کہ کیا ایک دو سالہ بچی کا دماغ مر چکا ہے یا نہیں، ٹیسٹ کیا جانا تھا، تاہم والدین اس ٹیسٹ کو رکوانے کے لیے عدالت جا پہنچے۔

https://p.dw.com/p/2T3Nm
Gehirn-Scan
تصویر: Colourbox/I. Jacquemin

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈاکٹرز اس ٹیسٹ کے ذریعے یہ جاننا چاہتے تھے کہ آیا یہ بچی حقیقی طور پر مر چکی ہے یا نہیں، کیوں کہ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ یہ بچی اب صحت یاب نہیں ہو سکتی۔

ورجینیا کامن ویلتھ ہیلتھ سسٹم ہسپتال کے ایک ترجمان مائیکل پورٹر کا کہنا ہے کہ میرنڈا گریس لاسن نامی یہ بچی یکم نومبر کو انتقال کر گئی تھی۔ مئی میں اس دو سالہ بچی کی سانس کی نالی میں پاپ کورن کا ایک ٹکڑا چلا گیا تھا، جس کے بعد اس کے دل نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ گھر پر پیش آنے والے اس واقعے کے بعد بچی کو ہسپتال منتقل کیا گیا اور تب سے یہ اس بچی کو مصنوعی تنفس فراہم کیا جا رہا تھا۔

لاسن کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بچی اب کبھی صحت یاب نہیں ہو سکتی، اس لیے اس بات کی تصدیق کے لیے بچی کی دماغی موت واقع ہوجانے کا ٹیسٹ کیا جانا ضروری ہے۔ تاہم لاسن کے والدین نے اس ٹیسٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بچی کی ’زندگی کو نقصان‘ پہنچ سکتا ہے۔

رچمونڈ کی سرکٹ عدالت نے لاسن کے والدین کے خلاف جون میں فیصلہ دیا تھا، تاہم کہا تھا کہ ہسپتال کو تیس ہزار ڈالر ادا کریں، جس کے بدلے ہسپتال یہ ٹیسٹ نہیں کرے گا۔ اس خاندان نے اب ورجینیا کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ جولائی میں اس ریاستی عدالتِ عظمی نے ہسپتال کو فوری طور پر یہ ٹیسٹ شروع کرنے سے روک دیا، تاہم عدالت یہ فیصلہ نہ کر پائی کہ آیا لاسن فیملی کی اس اپیل پر غور کیا جائے گا یا نہیں۔

اٹارنی کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’جس دوران میرانڈا ہسپتال میں تھی، ان تمام مہینوں میں ہم نے لاسن فیملی کا اپنی بچی کے لیے بے انتہا پیار دیکھا، جو اپنی بچی کی تکلیف میں ہر طرح سے ساتھ تھے۔‘‘

ڈاکٹروں کا عدالت میں کہنا تھا کہ یہ بچی مصنوعی تنفس فراہم کیے جانے کے بغیر خود سے سانس نہیں لے سکتی اور دماغی موت کے تعین کا ٹیسٹ اس بچی کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایک بچی، جس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہیں، پر ہسپتال کے وسائل کا استعمال بےجا ہے اور اس بچی کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنے میں روزانہ کی بنیاد پر قریب دس ہزار ڈالر کا خرچہ ہو رہا ہے۔