1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کی تیس فیصد آبادی موٹاپے کا شکار

مقبول ملک29 مئی 2014

اس وقت عالمی آبادی کا قریب ایک تہائی حصہ موٹاپے کا شکار ہے اور کوئی بھی ملک گزشتہ تین عشروں کے دوران اپنے ہاں موٹاپے کے شکار افراد کی شرح کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ یہ بات ایک نئے عالمی جائزے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1C94A
تصویر: picture alliance / dpa

لندن سے موصولہ خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں دو ارب سے زائد انسان موٹاپے کا شکار ہیں۔ طبی حوالے سے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے انسانوں کا جسمانی وزن اس شرح سے زیادہ ہے جسے ’صحت مند جسمانی وزن‘ قرار دیا جاتا ہے۔

فربہ پن یا موٹاپے کے شکار انسانوں کی عالمی سطح پر شرح سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ریکارڈ کی گئی ہے، جہاں یہ تناسب مردوں میں قریب 60 فیصد اور خواتین میں 65 فیصد بنتا ہے۔ دنیا کی موٹاپے کا شکار آبادی کا 13 فیصد صرف ایک ملک امریکا میں رہتا ہے۔ قومی آبادی میں موٹاپے یا obesity کے شکار شہریوں کی شرح فیصد کے لحاظ سے امریکا باقی تمام ملکوں سے آگے ہے۔ چین اور بھارت میں موٹاپے کے شکار افراد کی مجموعی تعداد ایسے انسانوں کی عالمی تعداد کا 15 فیصد بنتی ہے۔

Symbolbild Übergewicht
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ اعداد و شمار ایک ایسے نئے عالمی جائزے کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں، جو امریکا میں یونیورسٹی آف واشنگٹن کی طرف سے لیا گیا۔ اس عالمی سروے کی سربراہی یونیورسٹی آف واشنگٹن کے Health Metrics اور ارتقاء کے ادارے کے ماہر کرسٹوفر مرے نے کی۔ کوسٹوفر مرے کہتے ہیں، ’’صورت حال کافی پریشان کن ہے۔‘‘

اس عالمی تجزیے کے دوران دنیا کے 188 ملکوں میں 1980ء اور 2013ء کے درمیانی عرصے میں مکمل کیے گئے کُل 1700 سے زائد مطالعاتی جائزوں سے حاصل کردہ نتائج کا مجموعی جائزہ لیا گیا۔ کرسٹوفر مرے کے بقول اس گلوبل سٹڈی کے دوران انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اندازہ ہوا کہ کسی بھی ملک میں موٹاپے کے شکار افراد کی شرح میں کمی کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

انہوں نے کہا، ’’ہم نے دیکھا کہ گزشتہ تین عشروں سے بھی زائد عرصے کے دوران دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں تھا جو اپنے ہاں موٹاپے کے شکار شہریوں کی شرح میں قابل ذکر کمی کرنے میں کامیاب ہوا ہو۔‘‘ کرسٹوفر مرے کے مطابق فربہ پن اور اچھی آمدنی کے مابین ایک مضبوط تعلق پایا جاتا ہے۔ ’’جیسے جیسے لوگ زیادہ امیر ہوتے جاتے ہیں، ان کی توندیں بڑی اور وزن زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔‘‘

اس عالمگیر جائزے کے نتائج برطانوی طبی جریدے Lancet کے تازہ شمارے میں جمعرات 29 مئی کو شائع ہوئے۔ اس تحقیق کے لیے مالی وسائل امریکی کمپیوٹر کمپنی مائیکروسافٹ کے سابق سربراہ اور دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے والے بل گیٹس کی قائم کردہ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے مہیا کیے۔

Symbolbild Übergewicht
تصویر: picture-alliance/empics

یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ماہر کرسٹوفر مرے نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد کی اتنی زیادہ تعداد کی وجہ سے عالمی سطح پر ان بیماریوں کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جن کا براہ راست تعلق موٹاپے سے ہے۔ ان امراض میں ذیابیطس اور لبلبے کا سرطان سب سے نمایاں ہیں، جو پچھلی تین دہائیوں کے دوران مسلسل پھیلتی جا رہی بیماریاں ثابت ہوئی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت WHO کی سربراہ مارگریٹ چان نے ابھی حال ہی میں جنیوا میں اس تنظیم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر کہا تھا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بین الاقوامی سطح پر بچوں میں موٹاپے کا رجحان کم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کر دیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر جنرل کے مطابق آج کے بچے موٹے سے موٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ جدید طرز زندگی انسانی صحت کے لیے اچھے کے ساتھ ساتھ برا بھی ثابت ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی سربراہ کے بقول، ’’دنیا کے کچھ خطے ایسے بھی ہیں جہاں لوگ حقیقی معنوں میں زیادہ کھا کر مرتے جا رہے ہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید