دنیا کا تیز ترین شکاری نیوزی لینڈ کا مکڑا
10 اپریل 2016نیوزی لینڈ میں ویلنگٹن سے موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ مکڑا ممکنہ طور پر دنیا بھر میں جانداروں کی تمام معلوم انواع میں سے وہ واحد جانور ہے، جس کے جبڑے سب سے زیادہ تیز رفتاری سے حرکت کرتے ہیں۔
ماہرین کو اس کا ثبوت ایک ایسی ہائی اسپیڈ ویڈیو سے ملا جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے جاندار اپنے شکار کو ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے میں پکڑ کر اپنے منہ میں ڈال لیتے ہیں۔ یہ دورانیہ 0.0001 سیکنڈ بنتا ہے۔
یہ نئی ریسرچ امریکی ماہرین نے مکمل کی ہے اور اس کے نتائج ’کرنٹ بیالوجی‘ نامی تحقیقی جریدے کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔ اس ریسرچ کے دوران ماہرین نے شکار کو نرغے میں لینے کے لیے اپنے جبڑے استعمال کرنے والے مکڑوں کی مختلف قسموں کا مطالعہ کیا۔ ایسے مکڑے پوری دنیا میں صرف نیوزی لینڈ یا پھر جنوبی امریکا میں پائے جاتے ہیں۔
امریکا میں سمتھ سونیئن انسٹیٹیوشن کے نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ایک خاتون ماہر ہانا وُڈ نے بتایا کہ اس سے قبل محققین نے دیکھا تھا کہ چھوٹے حشرات کی دنیا میں کسی ممکنہ شکار پر بہت تیز رفتار حملے صرف چیونٹیوں کی طرف سے کیے جاتے تھے۔ لیکن اب نیوزی لینڈ میں مکڑوں کی اس قسم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ غالباﹰ دنیا کے سب سے زیادہ تیز رفتاری سے حرکت کرنے والے جبڑوں کے مالک جاندار ہیں۔
اس تحقیقی منصوبے کے دوران ہانا وُڈ نے مکڑوں کے حیاتیاتی خاندان Mecysmaucheniid سے تعلق رکھنے والے 14 مختلف قسم کے جانوروں کی طرف سے اپنے شکار پر حملہ کرنے کے عمل کو فلمایا۔ ان میں سے سب سے تیز رفتار جبڑوں والے مکڑوں کا تعلق ایسے حشرات کے Zearchaea نامی گروپ سے تھا، جو صرف نیوزی لینڈ میں پایا جاتا ہے۔
ہانا وُڈ کے مطابق یہ مکڑا اپنے شکار پر حملے کے لیے اپنے جبڑوں کی جو طاقت استعمال کرتا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو اس کے منہ یا چہرے کے بہت چھوٹے چھوٹے پٹھے پیدا کر سکتے ہیں۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مکڑے کے جبڑوں کی طاقت کے پیچھے کوئی دوسرا عمل بھی کارفرما ہو گا۔‘‘
اس امریکی خاتون سائنسدان نے ’کرنٹ بیالوجی‘ میں لکھا ہے، ’’ان مکڑوں کے تفصیلی مطالعے سے انسان اس قابل ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے روبوٹ تیار کر سکے، جو ویسے ہی غیر معمولی طریقے سے حرکت کرتے ہوں جیسے طریقے یہ مکڑے استعمال میں لاتے ہیں۔‘‘