1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر کے غریبوں کے لیے ’تیس نئی اقسام کا گوشت‘

عاطف بلوچ25 مارچ 2015

سائنسدانوں نے پھلیوں کی تیس ایسی نئی اقسام کا کامیاب تجربہ کیا ہے، جو انتہائی گرم موسم میں بھی کاشت کی جا سکتی ہیں۔ پروٹین سے بھرپور یہ پھلیاں غریب ترین ممالک میں کمی خوراکی سے نمٹنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ExUD
تصویر: T. Karumba/AFP/Getty Images

ٹامس روئٹرز فاؤنڈیشن نے سائنسدانوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے تناظر میں پھلیوں کی یہ نئی اقسام دنیا کے غریب باشندوں کے لیے ایک اہم خوراک ثابت ہو سکتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں آباد چار سو ملین انسانوں کے لیے توانائی سے بھری اس نئی خوراک کو ’غریبوں کے لیے گوشت‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

تاہم بتایا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے باعث 2050ء تک ان پھلیوں کی کاشت کے لیے موزوں رقبہ سکڑ کر نصف رہ جانے کا خدشہ ہے، جس سے لاکھوں انسان کم خوراکی کا شکار ہو کر زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار ہو سکتے ہیں۔

Anbau von grünen Bohnen in Kenia
ان پھلیوں کو کراس بریڈنگ کے عمل سے تیار کیا گیا ہے اور ان میں جینیاتی تبدیلی کا کوئی عمل کارفرما نہیںتصویر: T. Karumba/AFP/Getty Images

پھلیوں یا beans پر تحقیق کرنے والے ماہر سائنسدان اسٹیو بیبے نے ٹامس روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’دنیا بھر میں چھوٹی رقبے پر کاشت کاری کرنے والے کسان سازگار ماحول ہونے کے باوجود پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بہت سے انسان کم خوراکی یا مزید غذائی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ اس صورتحال میں اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو وہ اپنی اپنی زمینیں بیچ کر شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور ہو جائیں گے۔‘‘

بیبے کے مطابق نئی پھلیوں کی بہت سی اقسام خشک سالی اور بہت زیادہ درجہ حرارت میں بھی کاشت کی جا سکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ان اقسام کو مختلف پھلیوں کی کراس بریڈنگ کے عمل سے تیار کیا گیا ہے اور ان میں جینیاتی تبدیلی کا کوئی عمل کارفرما نہیں ہے۔ ان تیس نئی اقسام کے تجربے کے لیے سائنسدانوں نے پھلیوں میں پائے جانے والے ہزاروں مختلف اجزاء کا تجزیہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کی کس طرح کی آمیزش کو انتہائی گرم ماحول میں بھی کامیابی سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔

CGIAR نامی ریسرچ گروپ نے اس کامیاب تجربے کے بعد بتایا ہے کہ ان نئی پھلیوں میں آئرن کی بہت زیادہ مقدار بھی پائی جاتی ہے، جس سے غذائیت کی کمی پر قابو پانا بھی آسان ہو جائے گا۔

محققین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے سبب آئندہ لاطینی امریکا اور زیریں صحارا کے خطے کے یوگنڈا، نکارا گوآ، ہیٹی، برازیل، ہنڈوراس، کینیا، تنزانیہ اور عوامی جمہوریہ کانگو جیسے ممالک میں پھلیاں کاشت کرنے والے کسان شدید متاثر ہوں گے۔ ان ممالک میں کچھ کسان چھوٹے رقبے پر کاشت کاری کرتے ہیں، جن کا مقصد صرف اپنے کنبوں کے لیے فصل حاصل کرنا ہی ہوتا ہے اور وہ بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ زرعی مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت میں پلانٹ پروڈکشن اینڈ پروٹیکشن کے شعبے کے ڈائریکٹر Clayton Campanhola نے پھلیوں کے ان نئی اقسام کے کامیاب تجربے کو دنیا بھر میں کم خوراکی پر قابو پانے کے حوالے سے ایک اہم قدم قرار دیا ہے، ’’اختراع انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں ان پھلیوں کے بیجوں کو چھوٹی سطح پر کاشت کاری کرنے والے کسانوں تک پہنچانا چاہیے۔ یہ ایک بہت بڑی پیشرفت ہے۔‘‘