دماغی موٹر کو درکار ایندھن
10 نومبر 2014خاص طور سے موسم سرما میں جسم اور دماغ کو توانا رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ چائے یا کافی اور انگور سے حاصل کردہ شکر کی غیر معمولی مقدار کا استعمال کیا جاتا ہے ساتھ ہی بہت سے لوگ ذہنی اور جسمانی کاموں کو اچھی طرح انجام دینے کے لیے کیمیاوی ذرائع کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ طبی ماہرین ان مصنوعی اشیاء کے استعمال سے خبر دار کرتے ہیں۔
جرمنی کی فرینکفرٹ یونیورسٹی کے فارماکولوجی انسٹیٹیوٹ کے محقق گُنٹر ایکرٹ جنہیں غذائیت اور اعصابی سائنس کے مابین ربط کا ماہر جانا جاتا ہے، کہتے ہیں، " ذہنی استعداد یا صلاحیتوں میں اضافے کے لیے کیمیائی اجزاء کا سہارا لینا غیر صحت بخش عمل ہے اس کی بجائے جسمانی اور دماغی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے قدرتی اشیاء کا استعمال کرنا چاہیے" ۔
گُنٹر ایکرٹ کی تحقیق کا بنیادی موضوع " غذا اور دماغی سرگرمیوں کے مابین تعلق" ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان جو کچھ کھاتا ہے اُس کے اثرات براہ راست اُس کی سوچ اور دماغ کی کار کردگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ با الفاظ دیگر اہم اور صحت افزا غذا کے استعمال کے ذریعے ہم اپنی دماغی صلاحیتوں کو طویل عرصے تک بڑھاتے رہ سکتے ہیں اور قلیل وقت کے لیے بھی ہمیں ان صلاحیتوں میں واضح اضافہ کر سکتے ہیں۔
تیز رفتار قوت بخش
کافی اور شوگر ذہنی صلاحیتوں کو بہت تیزی سے بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ تاہم ان دونوں ہی سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ کیفین وقتی طور پر ذہن کو تیز رفتار بنا دیتی ہے تاہم یہ عمل مثبت اور طویل المدتی نہیں ہوتا ہے۔ ایک نئے مطالعاتی جائزے کے نتائج کے تحت دن میں چار کپ سے زیادہ کافی نہیں پینی چاہیے۔ بہت زیادہ شوگر کا استعمال خون میں رولر کوسٹر دوڑانے کا سبب بنتا ہے۔ توانائی میں فوری طور سے اضافے کے لیے انگوری شکر اور پھلوں کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے تاہم ان اشیاء کے استعمال سے جتنی تیزی سے خون میں شوگر کی سطح بڑھتی ہے اتنی ہی تیزی سے یہ گر بھی جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کو بہت شدید بھوک لگتی ہے اور ساتھ ہی وہ تکان محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ سالم اجناس سے تیار کردہ غذا، گری دار میوے اور پھلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ غذائی اجزاء طویل المدتی اور پائیدار توانائی فراہم کرنے اور دیر تک انسانوں کو فِٹ رکھنے میں غیر معمولی کردار ادا کرتی ہیں۔ اِن کے استعمال سے ایک انسان دیر تک بھوک بھی محسوس نہیں کرتا۔
فیٹ، وٹامن اور معدنی اجزاء
ہمارا دماغ 60 فیصد فیٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہماری غذا کا بڑا حصہ ناسیر شدہ فیٹی ایسیڈ پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے کینولا اور زیتون کے تیل، گری دار میوے یا نٹس، دلیا اور مچھلی کا روزانہ استعمال دماغ میں نیورو ٹرانسمیٹرز یا اعصابی ریشوں سے رسنے والے کیمیائی مادے ڈوپامین کو تقویت بخشنے کے علاوہ ذہن کی مجموعی قوت اور یاداشت کی صلاحیت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔