1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دماغ کے ساتھ آلہ نصب کر کے یادداشت کی بحالی، بہت جلد ممکن

افسر اعوان9 مئی 2014

امریکی ریسرچرز نے کہا ہے کہ وہ اگلے چند ماہ کے دوران دماغ کے ساتھ منسلک کیے جانے والے آلے کے حوالے سے نئی کامیابیوں کا اعلان کریں گے۔ یہ پیشرفت ایک دن زخمی فوجیوں کی یادداشت کی بحالی کا باعث بنے گی۔

https://p.dw.com/p/1BxKr
تصویر: Fotolia/marksykes

امریکا کی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹ ایجنسی (DARPA) ایک چار سالہ پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد یادداشت کو سمجھنے کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ سیمولیٹر یا نظام تیار کرنا ہے۔ یہ پراجیکٹ دراصل صدر باراک اوباما کے 100 ملین ڈالر مالیت کے اس پروگرام کا حصہ ہے جس کا مقصد انسانی دماغ کو سمجھنا ہے۔

اب تک انسانی دماغ کے حوالے سے اس طرح کی کوئی تحقیق نہیں کی گئی اور اسی باعث اس نئی تحقیق پر اخلاقی حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ زخمی فوجیوں یا بوڑھے انسانوں کے دماغوں میں رد وبدل کی کوشش کی جانی چاہیے یا نہیں۔

بعض ماہرین کے مطابق اس تحقیق سے جن لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ان میں 50 لاکھ کے قریب ایسے بزرگ امریکی شہری بھی ہیں جو یادداشت کو متاثر کرنے والی بیماری الزائمر کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ تین لاکھ کے قریب ایسے مرد وخواتین فوجی بھی ہیں جو افغانستان اور عراق جنگ کے دوران زخمی ہونے کے باعث دماغی عارضوں میں مبتلا ہیں۔

DARPA ایک چار سالہ پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد یادداشت کو سمجھنے کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ سیمولیٹر یا نظام تیار کرنا ہے
DARPA ایک چار سالہ پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد یادداشت کو سمجھنے کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ سیمولیٹر یا نظام تیار کرنا ہےتصویر: UCL

DARPA کے پروگرام منیجر جسٹن سانچز کا امریکا کی ٹیکساس یونیورسٹی میں ہونے والی والی ایک کانفرنس کے دوران کہنا تھا، ’’اگر آپ ملک کے لیے فرائض کی ادائیگی کے دوران زخمی ہو گئے ہیں اور اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی پہچاننے کے قابل نہیں رہے تو ہم اس طرح کے دماغی مسائل کو حل کرنے کے قابل بننا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ کانفرنس ٹیکساس یونیورسٹی کے ’سینٹر فار برین ہیلتھ‘ کی جانب سے منعقد کرائی گئی تھی۔

جسٹن سانچز کا مزید کہنا تھا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ہم دماغ کے ساتھ لگائے جانے والے ایسے آلات تیار کر سکتے ہیں جو براہ راست دماغ کے حصے ہپوکیمپس کے ساتھ تعامل یا انٹرفیس کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہماری مطلوبہ یادداشت کی پہلی قسم کو بحال کیا جا سکتا ہے جنہیں ڈکلیریٹیو میموریز یا توضیحی یادداشت کا نام دیا جاتا ہے۔‘‘

ڈکلیریٹیو میموریز دراصل انسانوں، واقعات اور اعداد وشمار سے متعلق یادداشتیں ہوتی ہیں۔ اب تک کوئی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی جس سے معلوم ہوا ہو کہ ان یادداشتوں کے کسی وجہ سے ضائع ہونے کی صورت میں انہیں بحال کیا جا سکا ہو۔

تاہم نیویارک یونیورسٹی کے لانگون میڈیکل سینٹر سے وابستہ طبی اخلاقیات کے ماہر آرتھر کپلان کہتے ہیں کہ یہ آسان سی بات ہے کہ جب آپ لوگوں کی یادداشتوں میں رد وبدل کے قابل ہو جائیں گے تو اس سے اخلاقی حوالے سے خطرناک صورتحال پیدا ہو جائے گی۔

آرتھر کپلان DARPA کو سینتھیٹک بائیالوجی سے متعلق معاملات پر مشورے دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب آپ دماغ میں رد وبدل کریں گے تو دراصل آپ کسی شخص کی پرسینلٹی یا ذات میں رد وبدل کر رہے ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ جب اس معاملے کو فوجیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یادوں کو ختم کرنے یا انہیں دماغ میں داخل کر کے جنگی طریقہ کار کو بدلا جا سکتا ہے۔ مثلاﹰ فوجیوں کو زیادہ متشدد اور کم اصول پسند بنایا جا سکتا ہے۔ کپلان مزید کہتے ہیں، ’’اگر میں ایک ٹیبلٹ کھا کر یا محض ایک ہیلمٹ پہن کر اپنی یادداشتوں کو اپنے دماغ سے مٹا سکتا ہوں تو پھر میں اپنے اعمال کے مواخذے سے بھی بچ سکتا ہوں۔‘‘

DARPA کے پروگرام منیجر جسٹن سانچز کے مطابق نئی پیشرفت کے حوالے سے پروگرام کا باقاعدہ اعلان آئندہ چند ماہ کے دوران کر دیا جائے گا۔