1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دل میں انتقام کا کوئی احساس نہیں، سُوچی

14 نومبر 2010

میانمار کی اپوزیشن رہنما آؤنگ سان سُوچی نے آج اپنی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے ہیڈکوارٹر کے باہر جمع اپنے تقریباً دَس ہزار حامیوں سے خطاب میں کہا کہ مفاہمت کے لئے وہ تمام جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/Q8GY
سُوچی کا اتوار کو حامیوں سے خطابتصویر: AP

65 سالہ نوبل امن انعام یافتہ سُوچی کو، جنہوں نے گزرے بیس برسوں میں سے پندرہ برس جیل یا نظر بندی میں گزارے ہیں، کل ہفتہ تیرہ نومبر کو رہا کر دیا گیا تھا۔ سُوچی نے کہا کہ اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی منصوبہ بندی کرنے سے پہلے وہ تمام متعلقہ افراد کی رائے جاننا چاہتی ہیں۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سُوچی نے کہا:’’جو کوئی بھی ملک اور جمہوریت کی بہتری کے لئے کام کرنے کا خواہاں ہے، مَیں اُس سے بات کرنے کے لئے تیار ہوں۔ قومی مفاہمت کا مطلب اِس بات کو جان لینا ہے کہ اختلافات موجود ہیں۔‘‘

اُنہوں نے کہا کہ اُن کے دل میں اُس حکومت کی جانب کوئی انتقامی احساسات نہیں ہیں، جس نے اتنے طویل عرصے تک اُنہیں قید و بند میں رکھا ہے۔ کئی برسوں کے بعد اپنی پہلی عوامی تقریر میں اُنہوں نے اپنے دَس ہزار پُرجوش حامیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اب سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

Aung San Suu Kyi fordert Meinungsfreiheit in Myanmar NO FLASH
اپنے دَس ہزار حامیوں سے خطاب میں سُوچی نے کہا کہ ملک میں مفاہمتی عمل کے لئے اب سب کو مل کر کام کرنا ہو گاتصویر: AP

میانمار میں، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، 1962ء سے فوجی حکومت قائم چلی آ رہی ہے۔ جس وقت سُوچی اپنے حامیوں سے مخاطب تھیں، پارٹی ہیڈکوارٹر کے سامنے واقع ایک عمارت میں فوجی نظر آ رہے تھے اور سکیورٹی ایجنٹ ہجوم کی تصاویر اُتار رہے تھے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سُوچی کل پیر کو ایک بار پھر پارٹی ہیڈکوارٹر جانے اور پارٹی معاملات پر کام کا آغاز کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

سُوچی کی رہائی کا پوری دُنیا میں خیر مقدم کیاگیا ہے تاہم ساتھ ہی بدستور جیلوں میں پڑے ہوئے دو ہزار سے زیادہ سیاسی قیدیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابھی اور بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ سُوچی کے ایک حامی نے کہا، ’’آج ہم بہت خوش ہیں لیکن ہم اور بھی زیادہ خوش ہوتے اگر سُوچی کے ساتھ ساتھ باقی دو ہزار سیاسی قیدیوں کو بھی رہا کر دیا گیا ہوتا۔‘‘

Aung San Suu Kyi fordert Meinungsfreiheit in Myanmar
آؤنگ سان سُوچی ہفتہ تیرہ نومبر کو اپنی رہائی کے فوراً بعد اپنی رہائش گاہ کے گیٹ پر اپنے پُرجوش حامیوں میں گھری ہوئیتصویر: AP

یہی مطالبہ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی کیا ہے، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ سُوچی کی رہائی ایک پہلا قدم ہے۔ ابھی اور متعدد سیاسی قیدی ہیں، جنہیں فوری طور پر رہا کیا جانا چاہئے۔‘‘

تجزیہ کاروں کے خیال میں سُوچی کو رہا کرنے کا مقصد یہ نہیں معلوم ہوتا کہ فوجی حکومت اُن کے یا اُن کی جماعت کے ساتھ کسی طرح کی کوئی سیاسی مکالمت شروع کرنا چاہتی ہے بلکہ وہ اِس لئے رہا کر دی گئی ہیں کہ فوجی قیادت اب مزید اُنہیں اپنے لئے اتنا بڑا خطرہ نہیں سمجھتی۔ سُوچی کے وکیل جیریڈ گینسر نے کل سی این این سے باتیں کرتے ہوئے خبردار کیا کہ فوجی حکومت کسی بھی وقت سُوچی کو پھر سے نظر بند یا گرفتار کر سکتی ہے۔ ’’یہاں ایک بے رحم فوجی آمریت قائم ہے، جو کسی بھی وقت یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ سُوچی اب ہماری سوچی ہوئی حد سے گزر گئی ہیں اور تب وہ اُسے دوبارہ گرفتار یا نظر بند کر سکتے ہیں۔‘‘

اگرچہ توقع کی جا رہی ہے کہ چین اور بہت سے دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ملک سات نومبر کے انتخابات کے نتائج کو آگے کی طرف ایک قدم قرار دیتے ہوئے قبول کر لیں گے تاہم لگتا ہے کہ مغربی دُنیا، جو اِن انتخابات کو پہلے ہی نمائشی نوعیت کا قرار دے چکی ہے، نئی حکومت کو آسانی سے قبول نہیں کرے گی۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں