دستی پنکھوں کی نایاب نمائش
دستی پنکھے اب نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ کسی زمانے میں دستی پنکھا بنانا ایک فن سمجھا جاتا تھا۔ دہلی کے اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار آرٹس میں ان دنوں پنکھوں کی نمائش چل رہی ہے، جو 24جون تک جاری رہے گی۔
19ویں صدی کا پنکھا
معروف پینٹر جتن داس نے بھارت کے شہر بھونیشور میں پنکھوں کا ایک میوزیم بھی قائم کیا ہے۔ جس میں دنیا بھر سے اکٹھے کیے گئے ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد پنکھے رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے پانچ سو منتخب پنکھوں کو دہلی میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ یہ تصویر 19ویں صدی کے ایک پنکھا کی ہے، جسے راجستھا ن کے ناتھ دوار مندر میں استعمال کیاجاتا تھا۔ اس پر ہندوؤں کے بھگوان کرشن اور رادھا کی تصویربنی ہوئی ہے۔
ڈانسنگ ڈول
فلم اداکارہ نندیتا داس کے والد جتن داس کے پنکھوں کے کلیکشن میں بھارت کے علاوہ چین، جاپان، کوریا، برما، بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشا، افریقہ اور مصر وغیرہ کے پنکھے شامل ہیں۔ جسے انہو ں نے پچھلے چالیس برسوں کے دوران جمع کیا ہے۔ جتن داس کا کہنا ہے کہ ان پنکھوں کی قیمت دو روپے سے لے کر بیس لاکھ روپے تک ہے۔ یہ تصویر ایک جاپانی پنکھے کی ہے۔ جسے ڈانسنگ ڈول یا رقص کرتی ہوئی گڑیا کا نام دیا گیا ہے۔
دنیا بھر کے پنکھے
76سالہ جتن داس کہتے ہیں کہ وہ جب بھی کسی ملک کا سفر کرتے ہیں تو وہاں کے مقامی پنکھے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں: ’’سب سے دلچسپ صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب میں بھارت میں کسی چوکیدار، باورچی یا چپڑاسی سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی والدہ کے تیار کردہ پنکھے مجھے لاکر دے۔ پہلے تو وہ ہنستے ہیں پھر میری سنجیدگی دیکھ کر گھر سے جو پنکھے لاکر دیتے ہیں وہ بے مثال ہوتے ہیں۔‘‘ اس تصویر میں دکھایا گیا پنکھا چین کا ہے۔
استنبول کا شاہی پنکھا
یہ پنکھا ترکی کے بادشاہ کے پنکھے کی نقل ہے۔ اسے استنبول کے صوفیہ میوزیم سے حاصل کیا گیا ہے۔ اس پنکھے کا دستہ موتیوں سے جَڑا ہے۔ یہ اٹھارہویں صدی کے اواخر کا ہے۔ اس طرح کے شاہی پنکھوں کا دستہ خالص سونے کا ہوتا تھا اور اس کے کنارے پر ہیرے جڑے ہوتے تھے۔ اس پنکھے کو سفید بطخ اور مور کے پروں سے تیار کیا جاتا تھا۔
پروں والے پنکھے
خوبصور ت پروں والے ان پنکھوں کا استعمال کبھی شاہی خاندان یا مذہبی تقاریب میں ہوتا تھا۔ یہ پر مور، شترمرغ، ہنس یا دیگر پرندوں کے ہوتے تھے۔ پروں کو ملا کر سلائی کی جاتی تھی اور ان کے چاروں طرف بہترین قسم کے کپڑے یا قیمتی پتھر لگائے جاتے تھے۔ ان کا استعمال مندروں میں مورتیوں کو پنکھا جھلنے کے لیے بھی ہوتا تھا۔
تاڑ کے پتوں والے پنکھے
تاڑ کے پتوں والے پنکھے عام طور پر اب بھی بھارت اور پاکستان میں آسانی سے مل جاتے ہیں۔ تصویر میں دکھائے گئے پنکھے مندروں کے شہر بنارس کے ہیں۔ ان پنکھوں کو خوبصورت بنانے کے لیے ان پر پینٹنگ بھی کی جاتی ہے۔
کشیدہ کاری والے پنکھے
کشیدہ کاری کو بعض اوقات جذبات کے اظہار کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ خوبصورت ڈیزائن اور دلکش پیٹرن والے یہ پنکھے دست کاروں کی مہارت کا ثبوت ہوتے ہیں۔ خواتین اس طرح کے پنکھے بنانے میں مہارت رکھتی ہیں۔ ان میں مختلف طرح کی سلائی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں شیشوں اورپتھروں سے سجایا جاتا ہے۔ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے یہ دلہن کے جہیز کا حصہ بھی بنتے ہیں۔
خس کے پنکھے
خس ایک قسم کا گھاس ہے، جو بھیگنے کے بعد دماغ کو معطرکرنے والی خوشبو دیتی ہے۔ ایک زمانے میں گھروں میں خس کے پردے عام تھے۔ اب شاذ و نادر ہی یہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جب ہوا خس کے پردے سے ٹکرا کر کمرے میں داخل ہوتی ہے تو پورے کمرے میں خوشبو بس جاتی ہے ۔خس کے پنکھوں کے دستے عام طورپر بانس کے ہوتے ہیں۔ اس پنکھے کو استعمال کرنے سے پہلے پانی سے بھگو لیا جاتا ہے۔
سکی گھاس کے پنکھے
سکی گھاس کے ریشے سنہرے اور چمکدار ہوتے ہیں۔ اس گھاس کو الگ الگ رنگوں میں رنگ کر پنکھے یا دیگر اشیاء تیار کیے جاتے ہیں۔ برصغیر میں یہ فن ماں سے بیٹی میں منتقل ہوتا رہا ہے۔ ایک زمانے میں دلہن اپنے جہیز میں اپنے ہاتھوں سے تیار سکی گھاس کے پنکھے بھی لے جاتی تھی۔ بھارت کے بہار اور اڑیسہ صوبوں میں سکی گھاس کے پنکھے عام طورپر بنائے جاتے ہیں۔
زردوزی والے پنکھے
زردوزی کشیدہ کاری کی ایک اصطلاح ہے، جس میں عام طورپر مخمل کے کپڑے پر چاندی یا سونے کے دھاگوں سے کڑھائی کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ایک مخصوص قسم کی سوئی کا استعمال ہوتا ہے جسے آری کہتے ہیں۔ کسی پنسل یا اسٹینسل کے ذریعہ کپڑے پر ڈیزائن اتارا جاتا ہے پھر اپنے فن کا کمال دکھایا جاتا ہے۔ اسے مزید خوبصورت بنانے کے لیے اس میں پتھر یا موتی لگائے جاتے ہیں۔
موتیوں والے پنکھے
شوخ رنگ کے موتیوں والے ان پنکھوں کو تیار کرنے میں کافی محنت اوردلجمعی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ پنکھے گجرات کے کچھ علاقوں میں تیار کیے جاتے ہیں۔ قبائلی عورتیں انہیں تیار کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ پنکھے پر مختلف ڈیزائن بنانے کے لیے پلاسٹک کے دھاگوں کا استعمال کرتی ہیں۔ پنکھے کے کنارے کو خوبصورت بنانے کے لیے عام طورپر اون کے دھاگے استعمال کیے جاتے ہیں۔
چمڑے کے پنکھے
یہ پنکھے عام طورپر بھارت کے مغربی حصے میں ملتے ہیں۔ مرد ان پنکھوں کو خاص طور پر پسند کرتے ہیں۔ ان پنکھوں کو ایک مخصوص تکنیک سے سجایا جاتا ہے۔ ان پر پیٹرن بنائے جاتے ہیں۔ شیشے اورپتھر بھی لگائے جاتے ہیں۔ ان پنکھوں کے لیے عام طور پر اونٹ کا چمڑا استعمال ہوتا ہے۔ افریقہ اور انڈونیشیا میں بھی چمڑے کے پنکھے مقبول ہیں۔
دھات کے پنکھے
دھات کے استعمال سے کوئی بھی شعبہ بچا نہیں ہے۔ پنکھے بھی اس کی مثال ہیں۔ دھات کے پنکھوں کی تیاری میں عام طورپر چاندی یا تانبے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ان پنکھوں کو مذہبی یا شاہی تقاریب میں علامتی طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ شاہی تقاریب میں استعمال ہونے والے پنکھے بالعموم کلہاڑی کی شکل کے ہوتے تھے۔ ان پر نہایت احتیاط کے ساتھ نقاشی کی جاتی ہے۔
یادگاری پنکھے
کسی زمانے میں مخصوص تقریبات کے لیے خصوصی پنکھے بھی تیار کیے جاتے تھے۔ یہ مختلف سائز، شکل اور ڈیزائن کے ہوتے تھے۔ ان پر بعض اوقات تقریب کا نام یا تقریب کا انعقاد کرنے والے کا نام بھی ہوتا تھا۔ صاحب تقریب اپنے مہمانوں کو یادگار کے طورپر یہ پنکھے تحفے میں دیا کرتے تھے۔ یہ تصویر اسی طرح کے ایک یادگاری پنکھے کی ہے۔
بانس کے پنکھے
بانس کا استعمال مختلف چیزوں کی تیاری میں ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں بانس کے پنکھے عام ہیں۔ اس کے لیے پہلے بانس سے پتلی پتلی تیلیاں تیار کی جاتی ہیں۔ انہیں مختلف رنگوں میں رنگا جاتا ہے اور پھر اپنی پسند اور ڈیزائن کے مطابق ان سے پنکھے تیار کر لیے جاتے ہیں۔