1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

درمیانی عمر کی ماؤں کو جاسوس بھرتی کیا جائے

امتیاز احمد5 مارچ 2015

برطانوی پارلیمان کی انٹیلیجنس اور سکیورٹی کمیٹی نے ملکی خفیہ اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جاسوسوں کے طور پر درمیانی عمر کی مائیں بھرتی کریں تا کہ باصلاحیت کارکنوں کی فہرست میں توسیع کی جا سکے۔

https://p.dw.com/p/1EmKg
Britischer Geheimdienst soll Mütter anheuern (Symbolbild)
تصویر: picture-alliance/chromorange

برطانوی پارلیمنٹ کی انٹیلیجنس اینڈ سکیورٹی کمیٹی نے اس رپورٹ میں خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو، ایم آئی سِکس اور مواصلاتی مانیٹرنگ ایجنسی جی سی ایچ کیو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دیگر پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ آن لائن فورم ’ممزنیٹ‘ کا بھی استعمال کریں تاکہ خفیہ ایجنسیوں میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھائی جا سکے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت برطانوی خفیہ اداروں میں کام کرنے والی خواتین کی مجموعی تعداد مردوں کے مقابلے میں صرف 37 فیصد ہے اور ان میں سے بھی زیادہ تر خواتین چھوٹے عہدوں پر کام کرتی ہیں۔

اس پارلیمانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ درمیانی عمر کی ماؤں یا پھر ایسی خواتین کے پاس، جو اپنےکیریئر کے وسط میں ہوں، زندگی کا قیمتی تجربہ ہوتا ہے، جسے استعمال میں لایا جانا چاہیے۔

Britischer Geheimdienst soll Mütter anheuern (Symbolbild)
تصویر: picture-alliance/Helga Lade Fotoagentur GmbH, Ger

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہے، جب ابھی گزشتہ ہفتے ہی فرانس کی بیرون ملک کام کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسی (ڈی جی ایس ای) نے اپنے دروازے اس لیے ایک مشہور گلیمر میگزین کے لیے کھول دیے تھے کہ فرانس کی خاتوں جاسوسوں کی زندگی پر روشنی ڈالی جا سکے اور مزید خواتین کو ایسے اداروں میں بھرتی کیا جا سکے۔

لندن میں برطانوی پارلیمانی کمیٹی کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملکی خفیہ ایجنسیوں میں خواتین کو ’ثقافتی اور رویوں کے مسائل‘ کا بھی سامنا ہے، جن کی وجہ سے خواتین کے لیے ان کی ترقی کی راہ میں مشکلات بھی پائی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جن جاسوس خواتین کے بچے ہوتے ہیں، انہیں یا تو انسانی وسائل کے یا پھر فنانس کے شعبوں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ بچوں والی خواتین کو بھی بیرون ملک خفیہ اسٹیشن چلانے یا پھر فیلڈ میں کام کرنے کے مواقع مہیا کیے جانے چاہییں۔

برطانوی خفیہ ایجنسیوں پر ایک عرصے تک صرف مردوں ہی کی اجارہ داری قائم رہی ہے۔ اس کا بہترین امیج بھی ہمیشہ مرد جاسوس جمیز بانڈ کی شکل میں ہی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے ان خفیہ ایجنسیوں میں خاموشی کے ساتھ اصلاحات جاری ہیں۔ حالیہ برسوں میں برطانوی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے ایسی اشتہاری مہمات کا بھی آغاز کیا گیا تھا، جن میں خواتین اور ہم جنس پرستوں کو بھی ان اداروں میں بھرتی ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔

یاد رہے کہ برطانوی سیکرٹ سروس کی تاریخ میں ایک عورت کو پہلی مرتبہ فروری 1992ء میں ایم آئی فائیو کی سربراہ بنایا گیا تھا اور اس خاتون کا نام سٹیلا ریمنگٹن تھا۔ اس تعیناتی کے خلاف اس وقت برطانوی اخبارات میں خصوصی طور پر ایک طوفان امڈ آیا تھا۔ اس سے پہلے جب یہ عہدہ مرد حضرات کو تفویض کیا جاتا تھا تو اس کی خبر چند سطروں سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ لیکن سٹیلا ریمنگٹن کی حمایت اور مخالفت میں خبروں اور مضامین کی اشاعت کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔