1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے خلاف کرد باغیوں کی اسٹریٹیجک کامیابی

امتیاز احمد16 جون 2015

شام میں سرگرم جہادی گروپ داعش کے خلاف نبرد آزما کُرد فورسز نے ترکی کی سرحد کے قریب شہر تل ابیض پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس اسٹریٹیجک اہم شہر پر قبضے کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fhpm
Kurdische Kämpfer Tel Abyad
تصویر: Reuters/R. Said

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس شہر پر قبضے کے لیے لڑنے والے کردوں اور دیگر اتحادی باغی گروپوں کو امریکی اتحادی فضائی حملوں کی مدد بھی حاصل رہی ہے جبکہ اس لڑائی کے نتیجے میں اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے کم از کم چالیس جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم داعش کی طرف سے ابھی تک ان ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

تل ابیض پر کردوں کا قبضہ اسلامک اسٹیٹ کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ شہر داعش کے لیے انتہائی اسٹریٹیجک اہمیت کا علاقہ ہے۔ شدت پسند تنظیم داعش ترکی سے ہتھیار، تیل اور غیر ملکی جنگجوؤں کو اس شہر کے ذریعے اسمگل کرتی آئی ہے۔ اس علاقے کو داعش کا مرکزی سپلائی روٹ قرار دیا جاتا ہے لیکن داعش کو دیگر سپلائی روٹس بھی میسر ہیں۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ترکی کی سرحد کی اندر سے ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کرد باغیوں کی تنظیم کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس ( وائے پی جی) نے اس جگہ اپنا جھنڈا لہرا دیا ہے، جہاں اب سے چوبیس گھنٹے پہلے داعش کا پرچم لہرا رہا تھا۔ ترک سرحد کے قریب شامی علاقے تل ابیض پر کرد باغیوں کے جھنڈے لہرائے جانے کی ویڈیو ترکی کی نیوز ایجنسی ’ڈی ایچ اے‘ نے نشر کی ہے۔

شام میں جنگی حقائق سے متعلق اعداد و شمار شائع کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق علاقے کے کئی حصوں میں داعش کے جنگجو ابھی تک مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کرد باغیوں کی تنظیم ’وائے پی جی‘ کے ترجمان پولات جان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ پورے شہر پر ان کا اور ان کے اتحادی باغیوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ تل ابیض شہر ترک سرحد اور داعش کے زیر قبضہ الرقہ شہر کو ملانے والا مرکزی راستہ بھی ہے۔

شامی کرد اہلکار ادریس نسان کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس شہر پر قبضے کا مقصد داعش کی سپلائی لائن توڑنا ہے۔‘‘ کرد باغیوں کا گروپ ’وائے پی جی‘ کا تعلق ترک کرد باغیوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے ہے اور اب اس گروپ کا ترک اور شام کی 899 کلومیٹر لمبی سرحد کے نصف حصے پر قبضہ ہے۔