1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش افغانستان میں مداخلت نہ کرے، طالبان کا خط

امتیاز احمد16 جون 2015

افغان طالبان نے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے نام ایک خط بھیجا ہے، جس میں دولت اسلامیہ سے افغانستان میں مداخلت نہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ اس خط میں افغانستان کے لیے ’ایک پرچم اور ایک قیادت‘ پر زور دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fi3Z
Screenshot shahamat-urdu

طالبان کی قیادت کی طرف سے یہ خط ایک ایسے وقت پر ارسال کیا گیا ہے، جب افغانستان کے مشرق میں حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان اور ان سے علیحدگی اختیار کرنے والے ایک دھڑے کے مابین شدید خونریز جھڑپیں ہوئی ہیں۔ طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے مقامی گروپ نے عراق اور شام میں سرگرم جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان میں داعش سے الحاق کرنے والے عسکریت پسندوں کی تعداد طالبان کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغان طالبان کی شوریٰ کی طرف سے لکھے گئے اس خط میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی اور اس جہادی تنظیم سے منسلک تمام عسکریت پسندوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ البغدادی کے نام اس خط میں لکھا گیا ہے، ’’امارت اسلامیہ افغانستان دینی اخوت کے مطابق آپ کا بھلا چاہتی ہے اور آپ کے معاملات میں عدم مداخلت کی سوچ رکھتی ہے اور آپ سے بھی اسی کی آرزو رکھتی ہے۔‘‘

اس مکتوب میں مزید لکھا گیا ہے، ’’امارت اسلامیہ افغانستان (افغانستان کو طالبان کی طرف سے دیا جانے والا نام) سابقہ جہادی تجربات اور اپنے معاشرے اور ماحول کو جانتے ہوئے یہ سمجھتی ہے کہ افغانستان میں محض جہادیوں کی صفوں میں اضافہ نہ تو جہاد ہو گا اور نہ اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔ اس لیے بھی کہ افغان معاشرے کی یہ خاصیت رہی ہے کہ یہ ہمیشہ سے ہی اندرونی اختلافات اور جنگوں کا شکار رہا ہے۔ ان اختلافات کا خاتمہ صرف واحد قیادت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔‘‘

اسی مکتوب میں اسامہ بن لادن اور کئی دیگر عرب جہادیوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ان جہادیوں کو افغان طالبان پر کس قدر اعتماد تھا۔ اس تحریر میں افغانستان میں جہادی گروپوں کے اتحاد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان اپنے ملک میں دوسرے ناموں اور جھنڈوں کے تحت کارروائیاں کرنے والے عناصر کی موجودگی کو اپنی جہادی حکمت عملی کے خلاف سمجھتے ہیں۔

اس موضوع پر روئٹرز نے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان اور افغانستان کے کئی ایک چھوٹے گروپوں نے بھی داعش سے الحاق کا اعلان کیا ہے جبکہ ابوبکر البغدادی نے تو یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کا مقصد پوری دنیا میں ’خلافت‘ کا قیام ہے۔ اس طرح کے اعلانات پر افغانستان میں طالبان کے کئی چھوٹے گروپوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ان شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا تھا کہ آیا طالبان کے سربراہ ملا عمر ابھی تک زندہ ہیں؟ اس حوالے سے اسی خط میں کہا گیا ہے کہ ملا عمر ابھی تک زندہ ہیں اور وہی افغان طالبان کی قیادت کر رہے ہیں۔

روئٹرز کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کی قیادت کو یہ خط ملا اختر محمد منصور کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور اس دستاویز میں اس نام کے ساتھ لکھنے والے کا عہدہ ’نائب امارت اسلامیہ افغانستان وسرپرست رہبری شوریٰ‘ بتایا گیا ہے۔

افغانستان میں داعش کے حامی عسکریت پسندوں نے متعدد صوبوں میں طالبان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں لیکن رواں ہفتے شدید ترین جھڑپیں مشرقی صوبے ننگرہار میں ہوئیں۔ ننگرہار میں صوبائی حکومت کے ترجمان احمد ضیاء عبدالزئی کے بقول حریف طالبان گروپوں کے مابین اس لڑائی کی وجہ سے وہاں ایک ہزار خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔

افغان اور امریکی حکام کے مطابق فی الحال افغانستان میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کو دولت اسلامیہ کی بہت کم حمایت حاصل ہے لیکن یہ پیش رفت اس لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ داعش اپنے نظریات میں طالبان کی نسبت بہت زیادہ پرتشدد ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ کی طرف سے لکھا گیا یہ خط افغان طالبان کو لاحق پریشانی کا مظہر بھی ہے۔ روئٹرز کے مطابق عربی زبان میں لکھے گئے اس خط کے ساتھ اس کے دری، پشتو اور اردو میں تراجم بھی جاری کیے گئے ہیں تاکہ یہی پیغام داعش کے حامی مقامی عسکریت پسندوں تک بھی پہچایا جا سکے۔

دریں اثناء آج منگل کے روز افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے یورپی ملک ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ہونے والی ایک امن کانفرنس میں شریک ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ ان کے آپس میں براہ راست مذاکرات بھی عمل میں آ سکتے ہیں۔ اس کانفرنس اور اس میں اپنی شرکت کی کابل حکومت اور افغان طالبان دونوں نے تصدیق کر دی ہے۔