1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دار فور کا بحران ختم کرنے کامطالبہ

17 ستمبر 2006

دار فور کے بحران میں اب تک دسیوں ہزار افراد ہلاک اور 2 ملین افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔سوڈان حکومت اس بحران پر قابو پانے کے لئے وہاں پر اقوام متحدہ کی قیام امن فوج کی تعیناتی کی مسلسل مخالفت کر رہی ہے جسے اس جنگ کے ختم نہ ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYJd
تصویر: AP

آج دنیا کے مختلف حصوں میں دار فور کے بحران پر ایکشن لینے کا دن منایا گیا۔ اس کے موقع پر امن تنظیموں کے کارکنوں نے دارفور کی جنگ کو ختم کرانے کا مطالبہ کیا۔ اس بحران میں اب تک دسیوں ہزار افراد ہلاک اور 2 ملین بے گھر ہو گئے ہیں۔

سوڈان کی حکومت نے ڈارفور میں قیام امن کے لئے عالمی دن کے اعلان اور آج دنیا کے مختلف ممالک میں دار فور کی لڑائی رکوانے کے لئے ہونے والے احتجاجی پروگراموں کو مسترد کیا ہے۔ سوڈان حکومت کا کہنا ہے جو لوگ آج کے احتجاجی پروگرام میںشرکت کر رہے ہیں وہ عالمی ذرائع ابلاغ کے ہاتھوں گمراہ ہوچکے ہیں۔

سوڈان کی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ دارفور کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے لیکن دیہی علاقوں پر حکومت کی طرف سے بمباری سے متعلق رپورٹیں غلط ہیں ۔دریں اثنا برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیرنے یورپی یونین کے 25 ممالک کے رہنماﺅں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دارفور کے بحران کے سلسلے میں مضبوط اور مشترکہ موقف اختیار کریں۔

ٹونی بلیر نے یورپی ممالک کے نام اپنے خط میں دار فور کی صورتحال کو نا قابل قبول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ عالمی برادری اس علاقے میں کئی ملین افراد کو کہ جنہیں حالیہ برسوں میں شدید درد و رنج کا سامنا کرنا پڑا ہے، نظر انداز نہیں کر سکتی۔

برطانوی وزیر اعظم نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت سوڈان اور باغی گروپوں پر تشدد کا راستہ ترک کردینے کے لیے زور ڈالے۔اقوام متحدہ 20 ہزار امن فوج دار فور روانہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن سوڈان حکومت کی طرف سے اقوام متحدہ کے اس پروگرام کی مسلسل مخالفت کی جار ہی ہے۔

ادھر یورپی کیمیشن کے سربراہ jose Manuel Durao Barroso نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین کی نئی سیاسی کوششوں کے آغاز کے لئے بہت جلد سوڈان کا دورہ کریں گے تاکہ اس انسانی المیہ کو ختم کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا اگرچہ یورپی یونین پہلے ہی دارفور میں امدادی کاروائیاں کر رہی ہے اور وہاں پر افریقی یونین کی فوج کی حمایت میں مصروف ہے لیکن اس کے باوجود اس بحران پر قابو پانے کے لئے نئی سیاسی کوششوں کا آغاز کرنا چاہتی ہے۔