1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیس ہزار سے زائد آئمہ کے لیے ماہانہ دس ہزار روپے

فریداللہ خان، پشاور
1 مارچ 2018

خیبر پختونخوا حکومت نے ماہ رواں سے صوبے کی بیس ہزار سے زائد مساجد کے آئمہ کو ماہانہ دس ہزار روپے اعزازیہ دینے کی منظوری دی ہے۔ سیکولر کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی اس حکومتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/2tWeq
Pakistan Peshawar - Mohabbat Khan Moschee
تصویر: Z. Khan

یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی صدارت میں ہونے والی صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ منظوری سے قبل کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ متعلقہ محکمے نے اعزازیہ کے مستحق بیس ہزار چھ سو ننانوے آئمہ کی تفصیلات جمع کی ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے محکمہ اوقاف اور وزارت خزانہ کو ہدایت دی ہے کہ صوبے بھر میں اس اعزازیہ کی شفاف تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے اس فیصلے پر جہاں سیکولر اور دیگر مذہبی جماعتوں نے تنقید کی ہے، وہاں صوبائی محکمہ خزانہ نے بھی اس خطیر رقم کی تقسیم کے طریقہء کار پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ محکمہ خزانہ کی جانب سے حکومت سے سوال کیا گیا ہے کہ ادائیگی کس محکمے کو کی جائے اور اس رقم کی جانچ پڑتال کا طریقہء کار کیا ہوگا؟

Pakistan Peshawar - Mohabbat Khan Moschee
تصویر: Z. Khan

 محکمہ خزانہ کے ایک اہلکار کے مطابق انہوں نے حکومت کو لکھا ہے کہ مذکورہ فنڈز کی شفاف طریقے سے تقسیم کے لئے طریقہ واضح کیا جائے۔ محکمہ خزانہ کے ساتھ دینی جماعتوں نے بھی اس حکومتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مسلم آئمہ کے بعد اقلیتی مذہبی پیشواؤں کے لیے بھی ماہانہ وظیفہ

 اس بارے میں جمیعت علما اسلام (ف) کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری عبد الجلیل جان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’صوبائی حکومت کے اس اقدام کو ہم سیاسی رشوت سمجھتے ہیں۔ یہ رقم ایسے وقت می‍ں دی جا رہی ہے، جب عام انتخابات میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔ اس کے لیے نہ کوئی اشتہار دیا گیا، نہ ہی کوئی تقرری کی گئی اور نہ ہی کوئی طریقہ کار وضح کیا گیا۔ یہ صوبائی حکومت کے اس پالیسی کا حصہ ہے، جس میں دو سال قبل علما کو خریدنے کا ذکر کیا گیا تھا۔‘‘

 ان کا مزید کہنا تھا، ’’صوبائی حکومت علما کو دس ہزار روپے ماہانہ میں خریدنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ اس سے قبل فنکاروں کو تیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا گیا۔ جونہی حکومت ختم ہوگی یہ سلسلہ بھی باقی نہیں رہے گا۔‘‘

Vorbereitung Fastenbrechen Ramadan Peschawar
تصویر: DW/F. Khan

مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات کے ساتھ ساتھ مذہبی شخصیات میں بھی اعزازیہ لینے پر اختلاف پائے جاتے ہیں۔ کئی اضلاع میں آئمہ نے اعزازیہ لینے سے انکار کیا ہے تاہم صوبائی کابینہ میں شامل جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر حبیب الرحمان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت میں بھی سامنے آیا تھا لیکن مذہبی جماعتوں پر مشتمل حکومت اس پر عمل درامد نہیں کر سکی تھی۔

صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے کے بیس ہزار سے زائد آئمہ کو ماہانہ وظیفہ دینے سے سرکاری خزانے سے سالانہ تین اعشاریہ پچیس ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔

 جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے قومی وطن پارٹی کے ترجمان طارق خان سے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا، ’’اگر حکومت مخلص ہوتی تو پہلے آئمہ کی تربیت اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لیے انہیں ریگولرائز کیا جاتا، باقاعدہ قانون سازی کے لیے اقدامات اٹھائے جاتے۔ یہ صرف مخصوص علاقوں کے مخصوص لوگوں کو نوازنے کے لئے کیا گیا ہے، جس کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ کیوں کہ نہ تو اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی کی گئی اور نہ ہی بجٹ میں رقم مختص کی گئی ہے، میرے خیال میں چند ماہ بعد یہ منصوبہ مکمل طور پر ناکام ہوگا اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع کیا جائے گا۔‘‘

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے آبائی ضلع نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ کو 275 ر ملین روپے دیے تھے جبکہ گزشتہ سال بھی اسی مدرسے کو تین سو ملین روپے فراہم کیے گئے تھے۔

خیبر پختونخوا میں تین ہزار اٹھائیس دینی مدارس میں سے صرف ایک مدرسے کو صوبائی خزانے سے اس قدر خطیر رقم دینے پر اپوزیشن نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔