1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خونی اتوار کی ہلاکتیں غیر منصفانہ تھیں: کیمرون

16 جون 2010

تیس جنوری سن 1972 بروز اتوار، شمالی آئر لینڈ کے مقام ’ڈیری‘ پر عوامی جلوس پر برطانوی فوجیوں کی فائرنگ سے چودہ افراد کی ہلاکت کی رپورٹ عام کردی گئی ہے۔ ان ہلاکتوں پر برطانوی وزیر اعظم نے اپنی معذرت پیش کی ہے۔

https://p.dw.com/p/Nrl2
بلڈی سنڈے: ڈیری میں گھومتی فوج: فائل فوٹوتصویر: picture alliance / dpa

برطانوی تاریخ میں بلڈی سنڈے یا خونی اتوار کو بوگ سائیڈ قتل عام کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ڈیری یا لنڈن ڈیری کے علاقے میں بوگ سائیڈ میں آئرش اجتماع کو برطانوی پیراشوٹ رجمنٹ کے فوجیوں کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آئرش لوگ اب اس شہر کو لنڈن ڈیری کم اور ڈیری زیادہ کہتے ہیں۔ اس اجتماع کا انتظام شمالی آئر لینڈ سول رائٹس تنظیم کی جانب سے کیا گیا تھا۔ یہ شمالی آئر لینڈ کی تاریخ میں انتہائی متنازعہ دن اور افسوس ناک واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔

اس رپورٹ میں فوج کے کردار پر تنقید کی گئی ہے اور واضح کیا گیا کہ گولی فوجی کی جانب سے پہلے چلائی گئی تھی جو بلا جواز تھی۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ’سویلے‘ رپورٹ کے مندرجات کو چونکا دینے کے ساتھ ساتھ پریشان کن کہا ہے۔

David Cameron
برطانوی وزیر اعظم: فائل فوٹوتصویر: AP

برطانوی ہاؤس آف کامنز میں تقریر کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایوان کو بتایا کہ عوامی اجتماع پر فائرنگ سے قبل کوئی انتباہ یا وارننگ جاری نہیں کی گئی تھی اور اس اجتماع سے کسی شخص کی جانب سے پٹرول بم یا پتھراؤ کی کارروائی نہیں کی گئی تھی تب بھی فوج نے مظاہیرن کو گولی کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ کے مطابق بہت سارے ہلاک شدگان یا زخمی وہ تھے جو بھاگ رہے تھے۔ کیمرون کے مطابق انکوائری کے دوران بہت سارے فوجیوں نے دانستہ طور پر جھوٹ کا سہارا بھی لیا۔ برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سر ڈیوڈ رچرڈز نے بھی وزیر اعظم کی معذرت کی حمایت کی ہے۔ فوج کے سربراہ نے بھی اعتراف کیا کہ خونی اتوار کے واقعہ میں فوج کے افسران اور جوانوں سے غلطیاں یقینی طور پر سرزد ہوئی تھیں۔ بلڈی سنڈے کے روز پیرا شوٹ رجمنٹ کے اس وقت کے سربراہ جنرل سر مائیک جیکسن نے بھی وزیر اعظم کی معذرت میں شمولیت کا بیان دیا ہے۔

لارڈ سویلے کی رپورٹ پر فوجیوں کے وکیل سٹیفن پولارڈ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لارڈ سویلے کے پاس انکواری کے دوران حاصل ہونے والی معلومات کو درست ثابت کرنے کی کوئی بڑی دلیل نہیں تھی۔ پولارڈ نے انکواری افسر کی شہادتوں کو منتخب کرنے کے عمل کو چیریز چننے سے تعبیر کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات کے عام ہونے پر کسی فوجی پر مقدمہ چلانے کا کلی اختیار شمالی آئر لینڈ کے محکمہ پبلک پراسیکیوٹر کے پاس ہے۔

Bloody Sunday Blutiger Sonntag Nordirland 1972
شمالی آئر لینڈ: بلڈی سنڈے کے بعد بیلفاسٹ میں تعینات فوجی: فائل فوٹوتصویر: AP

خونی اتوار کے بارے میں انکوائری کروانے کا فیصلہ سن 1998 میں اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کیا تھا اور اس کے سربراہ ہائی کورٹ کے معزز جج لارڈ سویلے کو مقرر کیا تھا۔ یہ انکوائری برطانوی تاریخ کی طویل ترین انکوائری ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگی ترین بھی ہے۔ اس پر بارہ سال کا عرصہ صرف ہوا اور دو سو ملین پاؤنڈ کے قریب رقم خرچ کی گئی۔ اس دوران برطانوی جج نے سینکڑوں افراد کے بیانات کو ریکارڈ کیا۔ انکواری کی رپورٹ گزشتہ سال عام ہونا تھی۔ اس سے پہلے بھی ایک انکواری وڈ گرے ٹربیونل نے مرتب کی تھی لیکن اس پر متاثرین نے عدم اطمنان کا اظہار کیا تھا۔

رپورٹ ضرور عام ہو گئی ہے لیکن برطانوی ماہرین قانون کا خیال ہے کہ اڑتیس سالوں بعد کمزور شواہد کی بنیاد پرکسی فوجی کو عدالتی سزا سنانا خاصا دشوار امر ہے۔ ماہرین کے خیال میں اتنے عرصے بعد شفاف مقدمے کا انعقاد ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو سکتا ہے۔ اس مناسبت سے استغاثہ کی جانب سے کوئی بھی کارروائی اصل میں انصاف کے حصول کو آزمائش میں ڈال سکتی ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: کشور مصطفیٰ