1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'خون دل میں ڈُبو لی ہیں انگلیاں میں نے‘

2 مئی 2018

تین مئی کو آزادی صحافت کا دن 'روایتی جوش و خروش‘ کے ساتھ منایا جائے گا۔ ایک بار پھر یہ دن آ کر بھی چلا جائے گا اور ’متاع لوح و قلم چھنتے‘ چلے جانے کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ کشور مصطفیٰ کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/2x22R
Pakistan Journalisten Demonstration Karachi
تصویر: Getty Images/AFP/R.Tabassum

اس سال آزادی صحافت کے عالمی دن کا مرکزی خیال ہے، ’طاقت پر کڑی نظر: میڈیا، عدل اور قانون کی حکمرانی‘۔ سچ تو یہ ہے کہ اس موضوع پر قلم اُٹھانے سے پہلے مجھے یہ سوچنا پڑ رہا ہے کہ شروع کہاں سے کروں۔

طاقت پر کڑی نظر

اگر اس موضوع پر لکھنا شروع کیا جائے تو ایک مضمون تو کیا جلد در جلد کتابیں بھی کافی نہیں ہوں گی۔ پہلا سوال جو میرے ذہن میں آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ ’طاقت‘ کونسی؟ اقتدار کی، عدلیہ کی، وردی کی، نوکر شاہی کی یا عوام کی؟ پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو مذکورہ طاقتوں میں سے جس ایک کو بھی دیکھ لیجیے، سوائے ناجائز استعمال کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ہاں شاید ’عوام کی طاقت پر نظر‘ رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ اسی لیے ان تک حقائق کی رسائی کے سلسلے کو منقطع کرنا سب سے موثر اقدام ہوتا ہے، اور یہ پاکستان میں بڑی ہی مہارت سے ہو رہا ہے۔ لیکن کیا عوام اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا شعور رکھتے ہیں؟

میڈیا

پاکستان میں آمریت کے ادوار میں سے ایک ’جنرل مشرف کا دور‘ بھی ہے، جس میں انہوں نے جدید دور کا تقاضوں مد نظر رکھتے ہوئے اور خود کو ایک ’جدیدیت پسند رہنما‘ ثابت کرنے کے لیے میڈیا کے فروغ اور اس کی آزادی پر غیر معمولی توجہ مرکوز کی۔ جنرل مشرف کے دور میں درجنوں نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس ملے اور بہت سے ریڈیو اسٹیشنز بھی قائم ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی الیکٹرانک میڈیا کے کنٹرول کے لیے پیمرا کا قیام بھی وجود میں آیا۔ پاکستان میں اس صحافتی آزادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی جماعتوں نے تو اس کا ناجائز استعمال شروع کیا ہی، ساتھ ہی فوج نے جس طرح سے میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا اُس کی بھی مثال نہیں ملتی۔

لاپتا زینت شہزادی دو برس بعد بازیاب

افغانستان ميں دھماکے آزادی صحافت پر حملہ ہیں، تبصرہ

’ایسا لگتا ہے کہ ان حملوں میں ریاستی ادارے ملوث ہیں‘

عدل 

معاشرے میں عدل کے لیے عدلیہ ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ دنیا کے اُن انوکھے معاشروں میں سے ہے جہاں اکثر و بیشتر اس کے ناقص اور بے بس ہونے کے شواہد سامنے آتے ہیں۔ پاکستانی عوام چیف جسٹس صاحبان سے یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ عوام کو انصاف کب دلوانے کے اہل ہوں گے۔ گزشتہ چند سالوں میں یہاں تک ہوا کے چیف جسٹس صاحبان نے میڈیا کی طاقت کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اسے اپنے موقف کی وضاحت کا ذریعہ بنایا۔ تاہم بد قسمتی سے ابلاغ کے ذریعے جو مناظر سامنے آئے اُس میں چیف جسٹس صاحبان کبھی اپنی بے بسی اور کبھی مقننہ یعنی پارلیمان کی بہت زیادہ مداخلت اور دباؤ کا رونا روتے دکھائی دیے۔ جہاں عدلیہ اور مقننہ کے تصادم کی صورتحال سامنے آئی، وہاں میڈیا نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں صحافیوں کو جان و مال سمیت ہر طرح کے نقصانات اُٹھانا پڑے۔

Mustafa Kishwar Kommentarbild App
کشور مصطفیٰ، سربراہ ڈی ڈبلیو اردو

قانون کی حکمرانی 

اس سال آزادئی صحافت کے عالمی دن کے مرکزی موضوع میں قانون کی حکمرانی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

کس قانون پر بات کی جائے؟ وہ قانون جو کم سن بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیے جانے جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث گروہوں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے قاصر ہے۔ وہ قانون جو معاشرے میں انتہا پسندی کے خلاف اور مذہبی رواداری، علمی و فکری تعلیم کے فروغ کے لیے لکھنے والوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتا، بلکہ ایسوں کا انجام مشال خان کے بھیانک قتل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اگر پاکستان میں قانون کی ذرا بھی حکمرانی ہوتی تو مذہبی اقلیتوں، نسلی گروہوں اور معاشرے کے دیگر کمزور طبقوں کی حالت یہ نہ ہوتی، جو میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے آ رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستانی صحافیوں کو جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ ہے ملک میں پایا جانے والا ’سزا سے استثنا‘ کا کلچر۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران سینکڑوں پاکستانی صحافی مارے گئے ہیں تاہم ان کے قتل کے مقدمات کے نہ تو کوئی حتمی فیصلے سامنے آئے ہیں نہ ہی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے۔ 

’ہم نے غم کو طاقت میں بدل دیا ہے‘

فوج اور میڈیا کا استعمال 

گزشتہ سالوں کے دوران پاکستانی فوج کی طرف سے میڈیا کووریج کو جس طرح استعمال کیا گیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ جنرل راحیل شریف تو ایسا ہیرو بنے کے ان کے آگے کوئی سیاسی رہنما نہ ٹک سکا۔ فوج کا اپنا ابلاغ عامہ کا جو ادارہ ہے، وہ جتنی مہارت سے کام کر رہا ہے ’اُس کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا‘۔ ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے صحافیوں اور میڈیا چینلز کو دبا کر رکھنے کی جو کوششیں ہیں ان کی کامیابی پر تو کوئی شک کر ہی نہیں سکتا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بورڈرز (RSF) کے 2018ء کے آزدای صحافت کے عالمی انڈکس میں شامل 180 ممالک میں پاکستان 139ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے میڈیا ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ پاکستانی صحافیوں کو ایک نہیں، متعدد ایسے گروپوں کے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے جن کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اس پر المیہ یہ کہ ریاست دیدہ و دانستہ یہ سب کچھ ہونے دے رہی ہے۔

ڈان لیکس، حکومت پر تنقید کے بعد فوج کا ’بیک آف‘

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ایک بار پھر تناؤ کا شکار؟

میں بطور ایک صحافی اس وقت خود سے شرمندہ ہوں کہ دنیا بھر میں اور خاص طور سے پاکستان میں جو کچھ مذہبی اقلیتوں اور نسلی گروپوں کے ساتھ ہو رہا ہے اُس کے خلاف عملی طور پر کچھ کرنے سے قاصر ہوں۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحے میں معصوم بچوں کا قتل ہو یا ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارے جانے کے واقعات، صحافی ان پر کُھل کر لکھنے اور بولنے سے خوفزدہ نظر آ رہے ہیں۔ تب بھی ان بے گناہوں کے خون کا جواب طلب کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے چاہے ہمیں ’خون دل میں انگلیاں کیوں نہ ڈبونی پڑیں‘۔