خوراک کی تقسیم کے نئے ضوابط پر کَیلے کے میئر پر تنقید
3 مارچ 2017کَیلے کی سابقہ مہاجر بستی کے قریبی علاقوں میں درجنوں تارکین وطن موجود ہیں، جنہیں امدادی ادارے مفت خوراک مہیا کرتے ہیں، تاہم کَیلے کی میئر کی جانب سے تارکین وطن کو مفت خوراک کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے سے متعلق نئے ضوابط متعارف کرائے جانے پر امدادی ادارے تنقید کر رہے ہیں۔
میئر کے دفتر کی جانب سے کہا گیا ہے ہے کہ بندرگاہی شہر کے نواح میں سابقہ ’جنگل‘ کے نام سے مشہور مہاجرکیمپ کے قریب لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں حکام نے مہاجرین کی اس بستی کا خاتمہ کر دیا تھا، جب کہ یہاں موجود سینکڑوں مہاجرین کو ملک بھر میں قائم دیگر مہاجر کیمپوں میں منتقل کیا گیا تھا، تاہم اب بھی یہاں قریبی علاقوں میں درجنوں مہاجرین موجود ہیں۔
کَیلے کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی میئر نتاشا بخارت کا کہنا ہے، ’’یہ خوراک کی تقسیم کے خلاف ہدایات نہیں، بلکہ اجتماع کے خلاف ہیں، جس سے نقص امن اور سلامتی سمیت گندگی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے، ’’میں نے کَیلے کے نواح میں ایسے اجتماعات پر پابندی کا یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کیوں کہ یہاں تارکین وطن کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں اور نہ ہی بنایا جانا چاہیے۔‘‘
تارکین وطن کی امداد کرنے والی دو مقامی تنظیموں نے اس فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔ یوٹوپیا 56 نامی ایک امدادی تنظیم نے کہا، ’’ہم ان افراد، بہ شمول بچوں کو بھوک سے مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ پہلے ہی باہر رہ رہے ہیں۔‘‘ اس تنظیم کے مطابق وہ قریب پانچ سو خوراکیں ان تارکین وطن تک پہنچا رہی ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ کَیلے کی سابقہ مہاجر بستی میں وہ تارکین وطن مقیم رہے ہیں، جو برطانیہ جانا چاہتے تھے۔ قریب ایک دہائی تک قائم رہنے والی اس بستی میں نکاسی آب نہ ہونے، گندگی اور انتہائی برے معیار زندگی کی وجہ سے اس مہاجر کیمپ کو ’جنگل‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسی تناظر میں فرانس اور برطانیہ نے دونوں ممالک کو ملانے والی زیرآب چینل ٹنل نامی سرنگ پر بھی نگرانی میں کئی گنا اضافہ کیا تھا۔