1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خواتین کی ویاگرا‘ مارکیٹ میں آئے گی یا نہیں؟

امتیاز احمد17 فروری 2015

خواتین کی جنسی قوت ابھارنے والی گولی دو مرتبہ مسترد ہو چکی ہے لیکن اس کی مارکیٹنگ کی حامی خواتین تنظیموں، سیاستدانوں اور دوا ساز کمپنیوں جیسے لابی گروپوں کی کوششوں سے اسے دوبارہ منظوری کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EdQB
Sinnliche Lippen
تصویر: picture-alliance/dpa/Jens Kalaene

امریکی دوا ساز کمپنی سپراؤٹ فارماسوٹیکلز نے کہا ہے کہ وہ امریکی محکمے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کو ایک نئی درخواست دینے جا رہی ہے، جس میں خواتین میں جنسی طلب کو ابھارنے والی فلِیبَین سیرین flibanserin نامی دوائی کو مارکیٹ میں لانے کی اجازت طلب کی جائے گی۔ اس کمپنی کے مطابق اس مرتبہ اس ڈرگ کے استعمال کے منفی اثرات سے متعلق بھی معلومات فراہم کی جا رہی ہیں اور ایسا ایف ڈی اے کی ڈیمانڈ پر کیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں ایف ڈی اے نے یہ کہتے ہوئے اس دوائی کی مارکیٹنگ سے متعلق درخواست کو مسترد کر دیا تھا کہ اس سے خواتین کی ڈرائیونگ کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔

اس مرتبہ تاہم دوا ساز کمپنی سپراؤٹ کی طرف سے اس کی درخواست کے ساتھ ساتھ ایک ایسی تحقیق کے نتائج بھی منسلک کیے گئے ہیں، جس میں جنسی قوت ابھارنے والی اس نئی ڈرگ کا استعمال کرنے والی خواتین کی صلاحیتوں کا موازنہ پلاسیبو (نقلی میٹھی گولی) اور عام نیند کی گولی استعمال کرنے والی خواتین سے کیا گیا ہے۔

Flibanserin
بنیادی طور پر ’فلِیبَین سیرین‘ کا تجربہ سن دو ہزار دس میں ایک جرمن دوا ساز کمپنی ’اِنگل ہائم‘ نے کیا تھا، جس دوران خواتین کو سر چکرانے، تھکاوٹ، متلی، بے خوابی، بے چینی، خشک منہ اور رات کے وقت پیشاب کے لیے اٹھنے جیسے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا تھاتصویر: picture-alliance/AP/Allen G. Breed

اگر خواتین کی جنسی قوت ابھارنے والی اس گولی کو مارکیٹ میں فروخت کی اجازت مل گئی تو اسے ویسی ہی کامیابی مل سکتی ہے، جیسی کہ نوّے کی دہائی کے آخر میں مردوں کے لیے بنائی گئی گولی ’ویاگرا‘ کو ملی تھی۔ دوا ساز کمپنیاں ایک عرصے سے ایسی ایک نئی دوائی مارکیٹ میں متعارف کرانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔

بنیادی طور پر ’فلِیبَین سیرین‘ کا تجربہ سن دو ہزار دس میں ایک جرمن دوا ساز کمپنی ’اِنگل ہائم‘ نے کیا تھا، جس دوران خواتین کو سر چکرانے، تھکاوٹ، متلی، بے خوابی، بے چینی، خشک منہ اور رات کے وقت پیشاب کے لیے اٹھنے جیسے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سن دو ہزار گیارہ میں اس جرمن دوا ساز ادارے نے اس نئی دوائی کے تمام تر حقوق امریکی کمپنی سپراؤٹ کو بیچ دیے تھے۔ بعد ازاں امریکا کے خوراک اور ادویات سے متعلق وفاقی دارے کے سائنسدانوں نے متفقہ طور پر اس کی مخالفت کر دی تھی۔

اس تعطل کے بعد دوا ساز کمپنی سپراؤٹ اور اس کی حامی دوا ساز کمپنیوں نے ’خواتین کی ویاگرا‘ کے مسئلے کو خواتین کے بنیادی حقوق سے جوڑتے ہوئے ایک اشتہاری مہم شروع کر دی تھی۔ اسی طرح کے ایک گروپ کی طرف سے امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ویب سائٹ پر ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے، ’’سیکس کے معاملے میں خواتین مساوی سلوک کی مستحق ہیں۔‘‘ اس درخواست کو پچیس ہزار کارکنوں جبکہ اس پٹیشن کے دائر کنندہ گروپ کو دوا ساز کمپنی سپراؤٹ، پَیلاٹین ٹیکنالوجیز اور ٹرائمل فارماسوٹیکل کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ تمام کمپنیاں خواتین کے جنسی عوارض کے علاج کے لیے ادویات تیار کرتی ہیں۔

اس گولی کے حق میں مہم چلانے والے گروپ کی تشہیری مہم کے ذمہ دار ادارے ’بلیو انجن میڈیا‘ کے ایک ترجمان نے یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ اس گروپ کے لیے کتنی فنڈنگ ان دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے آتی ہے؟ ’خواتین کی ویاگرا‘ کے حق میں مہم چلانے والے گروپ میں صحت سے متعلق تنظیمیں، جنسی ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں اور دیگر ادارے بھی شامل ہیں۔

سپراؤٹ اور دیگر دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے سن انیس سو ننانوے میں کرائے گئے ایک ایسے سروے کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے، جس کے مطابق امریکا میں تینتالیس فیصد خواتین کو جنسی مسائل کا سامنا ہے۔