خواتین کو صنفِ نازک کے طور پر لینے کی ضرورت نہیں، جرمن عدالت
13 مارچ 2018جرمنی کی وفاقی عدالت انصاف نے اُس اسی برس کی خاتون کی اپیل خارج کر دی ہے، جس میں اُس نے بینک کے خلاف کیس کیا تھا کہ اُس کے ساتھ ایک خاتون کے مطابق سلوک نہیں کیا گیا۔ بینک نے اس اسی سالہ خاتون کو محض اکاؤنٹ ہولڈر کے طور پر لیا اور اُس کی جنس کی وضاحت نہیں کی تھی۔
مردوں کی طرح محنتی نیپالی ملاح خواتین صنفی امتیاز کا شکار
برطانیہ: مسلم خواتین انگریزی سیکھیں، انتہا پسندی ختم ہو گی
’صنفی امتیاز پر سینڈوچ بیچنے والے تنقید کا مزہ چکھیں‘
امریکی معاشرہ ’پاتال‘ میں گِر چکا ہے، چین
اس مقدمے کی مدعیہ مارلیز کریمر نے عدالتی فیصلے کے ساتھ عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف جرمنی کی اعلیٰ ترین دستوری عدالت میں اپیل دائر کرے گی اور اگر وہاں سے بھی اُس کی داد رسی نہ ہوئی تو وہ یورپی یونین کی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ بزرگ خاتون کریمر جرمنی کے جنوب مغربی شہر زاربرُوکن کی رہائشی ہے اور اُس کا اکاؤنٹ اشپارکاسے بینک میں ہے۔ یہ بینک جرمنی کے بڑے اور اہم بینکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
مقامی بینک کے خلاف بنیادی عدالت میں شکایت درج کراتے ہوئے خاتون کا موقف تھا کہ یہ اُس کا دستوری حق ہے کہ اُسے لکھنے اور بولنے میں ایک خاتون کے طور پر لیا جائے۔ زاربرُوکن کی مقامی بنیادی اور انتظامی عدالت نے یہ شکایت فروری سن 2016 میں خارج کر دی تھی۔ بنیادی عدالت کے فیصلے کو ضلعی عدالت نے بھی مارچ سن 2017 میں برقرار رکھا۔
مارلیز کریمر نے اس مقدمے کے خارج ہونے کے خلاف وفاقی ریاست زارلینڈ کی اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی تھی اور اس اعلیٰ عدالت کے تینوں ججوں نے متفقہ طور پر ماتحت عدالتوں کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل مسترد کر دی۔
وفاقی عدالت انصاف (BGH) کے تین رکنی بینچ میں دو خواتین ججز بھی شامل تھیں۔ منگل تیرہ مارچ تین رکنی بینچ نے فیصلے میں واضح کیا کہ ریاست کے صنفی مساوات کے قوانین کسی خاتون کو یہ حق تفویض نہیں کرتے کہ اُسے ایک خاتون ہی کے طور پر لیا جائے۔ عدالت نے واضح کیا کہ بینک کے معیاری فارم درست ہیں اور اُس پر مرد یا عورت کا ظاہر کیا جانا ضروری نہیں ہے۔