1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خواتین کو برابری دینے میں سب کی ترقی،‘ عالمی يوم خواتين آج

عنبرین فاطمہ، کراچی8 مارچ 2014

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جا رہا ہے۔ اس سال اس دن کا عنوان ’خواتین کو برابری دینے میں سب کی ترقی‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/1BM4x
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی کامیابیوں کو اجاگر کرنا اور انہیں اقتصادی حوالے سے بہتر انداز میں قومی دھارے میں لانے کی کوششوں میں اضافہ کرنا ہے۔ پاکستان میں گو کہ گزشتہ چند دہائیوں سے مختلف سطحوں، بالخصوص روزگار کی منڈی میں، صنفی تفاوت کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں مگر آج بھی ملک کی اس نصف آبادی کا جاب مارکیٹ میں حصہ بہت کم ہے۔

Pakistan Frauen Kabaddi World Cup 2013
پاکستان کی خواتين کبڈی ٹيمتصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images

حرا شمس ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد گزشتہ ایک برس سے نوکری کی تلاش میں ہیں۔ مختلف اسکولوں سے لے کر دفاتر تک میں درخواستیں جمع کرانے کے باوجود وہ آج بھی ملازمت حاصل کرنے کے انتظار میں ہیں، ’’میں نے ماسٹرز کیا تو میرا خیال تھا کہ میں ملازمت کر کے مالی حوالے سے اپنے خاندان کا ہاتھ بٹا سکوں گی، مگر ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ شاید میں بھی مرد ہوتی تو اب تک نوکری مِل چکی ہوتی۔‘‘

حرا ایسی واحد خاتون نہیں ہیں جو ملازمت نہ ملنے کے باعث پریشان ہیں۔ اس کی ایک وجہ ملکی اقتصادی صورتحال ہے مگر اور بھی کئی وجوہات ہیں جن کے باعث روزگار کی منڈی میں خواتین کی شرح ان کی کُل آبادی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

''سینٹر فار جینڈر ریسرچ اینڈ پالیسی‘‘ سے وابستہ جینڈر اکانومسٹ ڈاکٹر یاسمین نے لیبر فورس سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں خواتین کی ملازمت میں شمولیت کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ انہوں نے بتايا، ’’ایسی خواتین جو کام کر سکتی ہیں، ان میں سے صرف بائیس فیصد خواتین کام کر رہی ہیں۔ اور ان میں سے تقریباً چوہتر فیصد خواتین غیر رسمی اکانومی میں کام کر رہی ہيں جس میں چھوٹے موٹے کام شامل ہیں، جو گھروں سے کانٹریکٹر کے ذریعے ہو رہے ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ خواتین زراعت کے شعبے میں ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر دس خواتین جو کام کر رہی ہیں ان میں سے سات اگریکلچر سيکٹر میں کام کر رہی ہیں۔‘‘

پاکستانی مصنصہ فاطمہ بھٹو
پاکستانی مصنصہ فاطمہ بھٹوتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کے حالات سے باخبر کوئی بھی شخص جانتا ہے کہ زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی اکثریت دراصل اپنے خاندان کے مرد حضرات کا ہاتھ بٹاتی ہیں اور انہیں اس کام کی کوئی اجرت نہیں ملتی یا جو ملتی ہے وہ مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین نے خواتین کی کم شمولیت کی ایک وجہ اسی عنصر کو بھی ٹہرایا، ’’ قومی سطح پر جو اعداد و شمار اکھٹا کیے جاتے ہیں ان کے مطابق اگر مرد اور عورت ایک ہی کام کر رہے ہوں تو عورت کی تنخواہ تقریباً ساٹھ فیصد کم ہوتی ہے۔ یعنی اگر مرد کو سو روپے مل رہے ہیں تو عورت کو پینتیس سے لے کر ساٹھ روپے تک ملتے ہیں۔ یہ فرق ذرا سا کم ہو جاتا ہے اگر عورت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتی ہے۔ لیکن ہماری زیادہ تر خواتین ان پوزیشنز پر نہیں ہیں۔ یعنی محض ایک یا ڈیڑھ فیصد خواتین ایسی ہیں جو مینجمنٹ پوزیشنز پر فائض ہیں۔

صنفی معاشیات کی ماہر ڈاکٹر یاسمین مزید کہتی ہیں، ’’حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ہماری سول سروس میں دس فیصد خواتین ہوں گی لیکن وہ تین فیصد سے زیادہ ہو ہی نہیں پاتیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں ان پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا۔ ‘‘

پاکستان میں خواتین کی کُل آبادی کا قریب 28 فیصد برسر روزگار ہے
پاکستان میں خواتین کی کُل آبادی کا قریب 28 فیصد برسر روزگار ہےتصویر: AP

عالمی بینک کی طرف سے جاری کردہ ورلڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ 2013ء کے مطابق پاکستان میں خواتین کی کُل آبادی کا قریب 28 فیصد برسر روزگار ہے۔ ان برسر روزگار خواتین کا 75 فیصد ایگریکلچر کے شعبے میں، محض 12 فیصد صنعتی شعبے میں جبکہ سروسز کے شعبے میں برسر روزگار خواتین کا 13 فیصد حصہ موجود ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق روزگار کی منڈی میں خواتین کی شمولیت شہری علاقوں میں نسبتاﹰ کم ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 80 فیصد سے زائد پاکستانی خواتین کی جاب مارکیٹ میں عدم شمولیت کی اہم وجوہات میں خواتین پر عائد گھریلو ذمہ داریاں اور تعلیم کی کمی شامل ہیں۔ خواتین کی فلاح وبہبود کے حوالے سے کام کرنے والوں کے مطابق اس طرح جو اصل صورتحال بنتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں کُل برسر روزگار افراد جنہیں اجرت ملتی ہے ان میں سے خواتین کی تعداد 10 فیصد سے بھی کم ہے۔

ڈاکٹر یاسمین کہتی ہیں کہ خواتین کی روزگار کی منڈی میں شمولیت میں اضافے کے لیے کئی اقدامات کی ضرورت ہے، ’’ ایک تو خواتین جو کام کرتی ہیں ان کا کام سراہا نہیں جاتا۔ دوسرا ہمارے ملک میں کچھ سماجی پابندیاں بھی ہیں یعنی خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اگر لڑکیاں گھر سے باہر جائیں گی یا کام کریں گی تو اس میں کوئی برائی ہوتی ہے۔ لیکن جب لڑکیاں کام کاج کرنے باہر نکل بھی جاتی ہیں تو تنخواہ کا مسئلہ آتا ہے۔ اس کے علاوہ ہراساں کرنے کا بھی ایک فیکٹر موجود ہے۔ ہمارے یہاں جب خواتین آتی ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یا تو وہ بہت مجبور ہیں اور اگر مجبور نہیں تو ضرور کوئی گربڑ ہے جو لڑکی گھر سے نکلی۔‘‘

تاہم اب حالات میں کچھ حد تک بہتری آ رہی ہے۔ پاکستان میں خواتین کے معاشی، سماجی اور معاشرتی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اپوا کی میڈیا پرسن فرزانہ رحمان کہتی ہیں، ’’ قابل تحسین بات یہ ہے کہ اب خواتین کو جن مسائل کا، ظلم کا یا نا انصافی کا سامنا ہوتا ہے وہ اسے کھل کر بتانے لگی ہیں۔ میڈیا میں آکر اس پر آواز اٹھانے لگی ہیں۔ پہلے تو خواتین میں آواز اٹھانے کی جھجھک توڑنا ہی بڑی بات ہے۔ اور اب اگر ایک عورت میڈیا میں بات کر سکتی ہے تو اپنے گھر، اپنے جرگے یا علاقے کے بڑوں سے بھی اس حوالے بات کر سکتی ہےاور یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔‘‘

رپورٹ: