1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین مناسب توجہ سے محروم

عاطف بلوچ10 مارچ 2015

دنیا بھر میں ایک بڑی تعداد میں میڈیا ادارے سرگرم ہیں لیکن اس کے باوجود خواتین اور لڑکیوں سے جڑے مسائل یا معاملات کو خبروں میں مناسب توجہ نہیں مل پا رہی۔

https://p.dw.com/p/1Eo4s
تصویر: Fotolia

صنفی امتیاز کی وجہ سے اس تقسیم کو دیکھتے ہوئے گلوبل میڈیا مانیٹرنگ پراجیکٹ GMMP کے تحت فنڈ ریزنگ کی ایک ایسی نئی مہم شروع کی گئی ہے، جس کا مقصد عورتوں اور لڑکیوں سے متعلقہ مسائل کو خبروں میں مناسب جگہ اور توجہ دلانا ہے۔ اس پراجیکٹ کو صنف اور میڈیا کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی اسٹڈی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ پراجیکٹ ورلڈ ایسوسی ایشن فار کرسچن کمیونیکیشنز (WACC) نامی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری ادارہ چلا رہا ہے، جو سماجی انصاف کے فروغ کے لیے کام کوشاں ہے۔

1995ء کے بعد سے اس پراجیکٹ کے تحت ہر پانچ برس بعد سال کا کوئی ایک دن منتخب کیا جاتا ہے، جس میں دنیا بھر کے میڈیا اداروں کی کوریج کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ اس مانیٹرنگ سےGMMP نے پتہ لگایا ہے کہ نیوز کوریج میں خواتین اور مردوں کے مابین بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔

Mann und Frau auf der Waage
اس عالمی ادارے نے اپنی چھان بین کے نتائج متعلقہ حکومتوں کے حوالے بھی کیے ہیںتصویر: picture-alliance/Chromorange

اس ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ اگرچہ دنیا کی کل آبادی میں خواتین نصف سے زیادہ تعداد میں ہے لیکن میڈیا کوریج کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آبادی ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ اس ادارے کی طرف سے تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا میں مردوں اور خواتین کی جس انداز میں کوریج کی جاتی ہے، ان میں صنفی امتیاز اور دقیانوسی تصورات کی بھرمار ہوتی ہے۔

اس عالمی ادارے نے اپنی چھان بین کے نتائج متعلقہ حکومتوں کے حوالے بھی کیے ہیں تاکہ وہ ان کی روشی میں اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرتے ہوئے خواتین کے ساتھ اس امتیازی رویے کا خاتمہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔

GMMP کی فنڈ ریزنگ مہم کے تحت کچھ افراد کو دس ڈالر کی رقم چندے کے طور پر دینے کی درخواست کی جاتی ہے اور وہ بعد ازاں اپنے مزید دس دوستوں کو دس دس ڈالر کے چندے کی اپیل کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اتنی رقوم جمع کر لیتے ہیں کہ مانیٹرنگ کا ایک اور دن منعقد کیا جا سکے۔ یہ مہم فیس بک، ٹوئٹر اور سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس پر چلائی جاتی ہے۔

نیوز کوریج میں صنفی امتیاز کے حوالے سے مانیٹرنگ کا خیال پہلی مرتبہ 1994ء میں منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں زیر بحث آیا تھا۔ کمیونیکیشن میں خواتین کی استعداد کاری کے حوالے سے بنکاک میں منعقد ہوئی اس کانفرنس میں اس موضوع کو انتہائی پسند کیا گیا تھا، جس کے ایک برس بعد 71 ممالک کے رضا کاروں نے اخباروں، ٹیلی وژن اور ریڈیو سے خبروں کو اکٹھا کر کے اپنی پہلی رپورٹ تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں پچاس ہزار میڈیا دستاویزات اور ریکارڈز کو شامل کیا گیا تھا۔

اس مہم کے سلسلے میں آخری میڈیا مانیٹرنگ رپورٹ 2010ء میں مرتب کی گئی تھی، جس کے مطابق صرف 24 فیصد کوریج خواتین سے متعلق تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق مردوں کو عمومی طور پر ماہرین کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ ان خبروں میں بھی زیادہ تر خواتین کو ایک ’متاثرہ شخص‘ کے طور پر رپورٹ کیا گیا تھا جبکہ مختلف معاملات کے بارے میں ان کی رائے یا خیالات کو مناسب جگہ نہیں دی گئی تھی۔

اس ادارے کا کہنا ہے کہ اگر عورتوں اور لڑکیوں کے تحفظات خبروں میں نمایاں نہیں ہوں گے تو وہ دوسرے درجے کے شہری بن جائیں گی۔ اس تناظر میں زور دیا گیا ہے کہ میڈیا اداروں کو اپنی ادارتی پالیسی میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے، جو مساوی بنیادوں پر ہو اور صنفی برابری کی ترغیب دیتی ہو۔

جی ایم ایم پی کے تحت چلائی جانے والی ایسی مہموں کے لیے رضا کارانہ بنیادوں پر مقامی اداروں، یونیورسٹیوں کے طلبہ، محققین اور دیگر شعبوں کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔