1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خمینی کے فتوے کے باوجود ایرانی ٹرانس جینڈر تفریق کا شکار

21 مئی 2018

ایرانی سپریم لیڈر اور اسلامی انقلاب کے رہنما خمینی نے تیس برس قبل ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ عزت سے پیش آنے سے متعلق ایک فتویٰ جاری کیا تھا۔ تاہم ایران کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو آج بھی سماجی سطح پر کئی مشکلات درپیش ہیں۔

https://p.dw.com/p/2y4Ij
Iran Transgender
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Salemi

تہران کی ایک بلند عمارت میں واقع ایک فلیٹ کی بالکونی پر کھڑی انیس سالہ ٹرانس جینڈر لڑکی نہال شہر کی سڑکوں پر گزرنے والے افراد کو دیکھ رہی ہے۔ یہ فلیٹ اس کی والدہ کی ملکیت ہے اور شاید یہ فلیٹ اور بالکونی ہی ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔ نہال کا کہنا ہے کہ اس کی جنس کے باعث اسے شہر کی سڑکوں، اسکول اور عوامی مقامات پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

ایسوسی ایٹیڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے نہال نے بتایا کہ اسے اسکول میں بھی تنگ کیا جاتا تھا جس کے باعث اس نے پڑھائی ترک کر دی۔ اس کے اپنے قریبی رشتہ دار بھی اس سے ملنے سے گریزاں رہتے ہیں۔

مغربی ممالک کے شہریوں کے لیے شاید یہ بات حیرت کا سبب ہو گی کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی نسبت ایران ٹرانس جینڈر افراد کے لیے کشادہ ذہن رکھتا ہے۔ تیس برس قبل ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی خمینی نے ٹرانس جینڈر افراد کی توقیر سے متعلق ایک فتویٰ دیا تھا جس کے بعد ٹرانس جینڈر افراد کے لیے سرجری کرانے کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔

سن 1980 کی دہائی میں مردانہ لباس میں ملبوس مریم خاتون پور مُلک آرا نامی ایک ٹرانس جینڈر خاتون سکیورٹی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سپریم لیڈر خمینی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ مُلک آرا نے انہیں بطور ٹرانس جینڈر درپیش مشکلات کے حوالے سے بتایا۔ بعد ازاں موجودہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بھی خمینی کے فتوے کی تائید کرتے ہوئے مُلک پور کو ان کی سرجری کے بعد انہیں سیاہ عبایا دے کر بطور خاتون مُلک پور کی شناخت تسلیم کی تھی۔

گزشتہ تیس برسوں سے ایرانی ٹرانس جینڈر شہری سرجری کے ذریعے مرد یا خاتون میں سے کسی جنس کا انتخاب کر سکتے ہیں اور سرجری کے لیے حکومت مالی معاونت بھی فراہم کرتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایران میں پچاس ہزار سے زائد ٹرانس جینڈر افراد ہیں۔

سماجی بہبود کے ایرانی محکمے کے مطابق گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران تین ہزار سے زائد ٹرانس جینڈرز نے تبدیلی جنس کی سرجری کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ ایرانی نیم سرکاری نیوز ایجنسی انسا کے مطابق صرف گزشتہ برس ستر ٹرانس جینڈر افراد نے سرجری کے لیے حکومتی مالی معاونت کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔

نہال کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود آج بھی تہران جیسے لبرل شہر میں بھی بطور ٹرانس جینڈر انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نہال کے مطابق، ’’معاشرتی روابط اکثر برا تجربہ ثابت ہوتے ہیں، زبانی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ تو چند افراد نے مجھے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔‘‘

مارویہ ملک نے تاریخ رقم کر دی

ایرانی وزارت صحت کی جانب سے ٹرانس جینڈر افراد کو نفسیاتی علاج مہیا کرنے والے ماہر نفسیات بہنام احدی کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی صورت حال کا بھی کئی مرتبہ سامنا کرنا پڑا کہ جب انہوں نے والدین کو بتایا کہ ان کی اولاد ٹرانس جینڈر ہے تو والدین نے انہیں قتل کر دینے کی دھمکی تک دی۔ تھیٹر ڈراموں کے ذریعے ٹرانس جینڈر افراد کے مسائل اجاگر کرنے والی خاتون ڈائریکٹر ساناز بیان کہتی ہیں، ’’امام خمینی کے فتوی کو تیس برس بیت گئے، تیس سال کسی قانون پر عمل درآمد کے لیے کافی زیادہ وقت ہے۔‘‘ تاہم ابھی تک معاشرتی سطح پر ٹرانس جینڈر افراد کی قبولیت میں کوئی بہتری نہیں آ پائی۔

نہال فی الوقت صرف اپنی والدہ کے گھر کی بالکونی پر کھڑی اچھے وقتوں کی منتظر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے جیسے دیگر انسانوں کی بہبود کے لیے کام کرنے کی خواہش مند ہیں۔

ش ح/ ع ا (اے پی)