1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلا ئی کاٹھ کباڑ کا پتہ لگانے والا لیزر نظام

25 جولائی 2010

ایک آسٹریلوی کمپنی نے ایک ایسا لیزر سسٹم ایجاد کیا ہے جو زمین کے گرد خلا میں موجود کاٹھ کباڑ کا پتہ لگاتا ہے۔ اس طرح خلائی جہازوں اور مصنوعی سیاروں کو اس سے ٹکرانے سے بچایا جاسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/OTz5
تصویر: AP

الیکٹرک آپٹک نامی اس آسٹریلوی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کریگ سمتھ کے مطابق زمین کے گرد خلا میں دو لاکھ سے زائد ایسے چھوٹے اجسام یا کاٹھ کباڑ موجود ہے جس کا سائز ایک سینٹی میٹر سے بھی کم ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سینٹی میٹر یا اس سے بڑے اجسام کی تعداد کا اندازہ پانچ لاکھ ہے۔ اس کاٹھ کباڑ یا ساز وسامان میں دراصل ایسی چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں جو دراصل خلائی سفر کے دوران راکٹس یا مصنوعی سیاروں کی تنصیب کے دوران خلا میں رہ جاتی ہیں۔

کریگ سمتھ کے بقول، " خلا میں موجود کاٹھ کباڑ یا اجسام میں بعض بس کے سائز کے برابر راکٹ کے وہ حصے ہیں جو دوران پرواز خلا میں چھوڑ دیے جاتے ہیں اور بعض ایک ملی میٹر سے بھی کم سائز کے اکھڑے ہوئے پینٹ کے حصے۔"

Der Galaxie Express im Space Center Space Center Bremen
خلا ئی کاٹھ کباڑ تقریباﹰ 30 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے زمین کے گرد چکر لگا رہا ہوتا ہے اور کسی چیز سے ٹکرانے کی صورت میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔تصویر: KUK Filmproduktion GmbH

سمتھ کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ خلا میں موجود یہ کاٹھ کباڑ تقریباﹰ 30 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے زمین کے گرد چکر لگا رہا ہوتا ہے۔ لہذا اگر آپ بھی اسی مدار اور سمت میں سفر نہ کررہے ہوں تو ان اجسام کے ٹکرانے سے شدید نقصان سے دوچار ہوسکتے ہیں، جو کہ کسی مصنوعی سیارے کی مکمل تباہی کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔

الیکٹرک آپٹک نامی آسٹریلوی کمپنی کے تیار کردہ ٹریکنگ سسٹم میں زمین سے فائر کی جانے والی لیزر خلا میں موجود 10 سینٹی میٹر یعنی چار انچ تک کے سائز کے ٹکڑوں کا درست طور پر کھوج لگا لیتی ہے۔

الیکٹرک آپٹک سسٹمز کے سربراہ کہتے ہیں’ ہم ان ٹکڑوں کی پوزیشن کا بالکل درست پتہ لگاکر یہ پیش گوئی بھی کرسکتے ہیں کہ یہ ٹکڑے کسی مخصوص چیز سے ٹکرائیں گے یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح اس کاٹھ کباڑ کے ٹکراؤ کی وجہ سے خلابازوں اور مصنوعی سیاروں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔

الیکٹرک آپٹک سسٹمز کے مطابق آسٹریلوی حکومت نے اس ٹیکنالوجی کی تیاری کے لئے ساڑھے تین ملین امریکی ڈالر خرچ کئے۔ کریگ سمتھ کے مطابق ابتدائی طور پر یہ سسٹم کینبرا کی ماؤنٹ سٹروملو نامی خلائی رصدگاہ میں نصب کیا گیا ہے، تاہم اب دنیا کے اکثر خلائی ادارے اس میں دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں۔

تاہم سمتھ کا کہنا ہے کہ اس نظام سے بہترین فائدہ حاصل کرنے کے لئے دنیا کے ضروری مقامات پر بنائے جانے والے ٹریکنگ سٹیشنز کا ایک نیٹ ورک قائم کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ایک ٹریکننگ سسٹم محض اپنے تنصیب کے مقام کے اوپر کی خلا میں موجود اجسام کا کھوج لگا سکتا ہے۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : کشور مُصطفیٰ