1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خدا حافظ، میرے بیٹے!

عاطف بلوچ15 مئی 2015

پاکستان میں شیعہ مذہبی اقلیت پر ہونے والے ایک خونریز حملے میں اپنے ایک بیٹے کی ہلاکت کے بعد کوئٹہ کا رہائشی علی پُرعزم تھا کہ وہ اپنے دوسرے بیٹے کو کسی دوسرے ملک بھیج دے گا۔

https://p.dw.com/p/1FQDL
بلوچستان میں شیعہ کمیونٹی پر خونریز ترین حملہ دس جنوری 2013ء کے روز کیا گیا تھا، جس میں اقبال حسین کا بھائی محمد حسن بھی ہلاک ہو گیا تھاتصویر: AFP/Getty Images

شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے علی نے اپنے بیٹے اقبال حسین سے کہا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر چلا جائے۔ یوں اقبال حسین بھی ہزاروں ایسے تارکین وطن کی طرح سمندری لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک نئی زندگی کی تلاش میں نکل پڑا۔ علی نے بیس ہزار امریکی ڈالر کی جمع پونجی اپنے بیٹے اور اس کی ماں کے حوالے کی اور کہا کہ وہ کراچی سے غیر قانونی طور پر انڈونیشیا پہنچیں، جہاں سے ان کی اگلی منزل آسٹریلیا تھی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں سے رابطہ کیا، جنہوں نے انہیں سمندری راستے سے ایک نئے براعظم میں پہنچانا تھا۔

اقبال حسین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اپنے اس سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے کہا، ’’کشتی انتہائی خطرناک تھی۔ اس میں دو سو افراد سوار تھے، جن میں سے بیس کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ سمندری لہریں بہت اونچی اور تند تھیں۔ یہ انتہائی خطرناک سفر ثابت ہوا۔‘‘ اقبال نے مزید کہا کہ کسی حادثے سے قبل ہی ماہی گیروں کی ایک بوٹ نے انہیں بچا لیا اور یوں ماں اور بیٹا آخر کار میلبورن پہنچ گئے، جہاں اقبال اب انگریزی سیکھ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’پاکستان میں نوجوان شیعہ افراد کے لیے کوئی امید باقی نہیں بچی جبکہ یہاں آسٹریلیا میں ایک نئی زندگی ان کا استقبال کر رہی ہے۔‘‘

بلوچستان کی شیعہ کمیونٹی خوف میں مبتلا

صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے مری آباد میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ وہاں کا ہر کنبہ اپنے دامن میں موت اور جلا وطنی کی کوئی نہ کوئی کہانی سمیٹے ہوئے ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران انتہا پسند سنیوں کے شیعہ کمیونٹی پر کیے جانے والے حملوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک تازہ حملے میں بدھ کے دن کراچی میں چوالیس اسماعیلی شیعہ شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان پاکستانی شیعہ مسلمانوں پر کیے گئے اس حملے کی ذمہ داری سنی عقیدے کے حامل دہشت گردوں کے گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبولی کر لی ہے۔

Pakistan Angriff auf Bus in Karachi
بدھ کے دن کراچی میں چوالیس اسماعیلی شیعہ شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

مقامی اداروں کے مطابق بلوچستان میں دو لاکھ شیعہ آباد ہیں۔ اس کمیونٹی کے خلاف حملوں میں تیزی کی وجہ سے بالخصوص بہت سے نوجوان غیر قانونی طور پر ترک وطن کر چکے ہیں۔ بلوچستان میں شیعہ کمیونٹی پر خونریز ترین حملہ دس جنوری 2013ء کے روز کیا گیا تھا، جس میں دوہرے بم دھماکوں میں کم ازکم سو افراد مارے گئے تھے۔ اسی حملے میں اقبال حسین بھی زخمی ہوا تھا جبکہ اس کا بھائی محمد حسن ہلاک ہو گیا تھا۔

علی کے مطابق اس بہیمانہ کارروائی کے بعد اس کی اہلیہ کا موقف تھا کہ اس نے اپنا ایک بیٹا کھو دیا ہے تاہم وہ دوسرے کو موت کے منہ میں جاتا نہیں دیکھ سکتی۔ عمر رسیدہ علی کے دو بھائی بھی مذہبی عقائد کی وجہ سے ہی ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اپنے مقتول بیٹے اور بھائیوں کی قبروں کے قریب کھڑے علی نے پرنم آنکھوں سے مزید کہا کہ وہ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا، ’’اگر میں بھی یہاں سے چلا گیا تو میرے بیٹے اور بھائیوں کے لیے آنسو کون بہائے گا؟‘‘

اقبال حسین کی طرح علی رضا بھی نئی زندگی کی تلاس میں پاکستان سے فرار ہونا چاہتا تھا۔ ہزارہ شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے علی رضا جیسے افراد اپنے چہروں کے مخصوص نقوش کی وجہ سے سنی انتہا پسندوں کا آسان ہدف تصور کیے جاتے ہیں۔ کوئٹہ میں ایسے ہی ایک حملے کے نتیجے میں اپنے دوست یوسف کی ہلاکت کے بعد علی رضا نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ پاکستان سے فرار ہو جائے گا۔ اس کے والد سید قربان نے اسے کسی نہ کسی طرح ملائیشیا پہنچا دیا تاکہ وہ وہاں اپنا کاروبار شروع کر سکے۔ لیکن اس کا یہ منصوبہ کبھی بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

’دونوں طرف ہی موت منتظر‘

سید قربان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ایک دن علی رضا نے مجھے فون کیا اور کہا کہ وہ سمندری راستے سے آسٹریلیا جانا چاہتا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ بیٹا، ایسا مت کرو۔‘‘ جس کشتی میں علی رضا سوار تھا، اس میں ڈھائی سو دیگر غیر قانونی تارکین وطن بھی موجود تھے۔ تاہم یہ کشتی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی سمندر میں ڈوب گئی تھی۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے کچھ افراد کی لاشیں تو مل گئیں لیکن اس بدقسمت کشتی میں سوار علی رضا اور دیگر مسافروں کو ہمیشہ کے لیے سمندر نگل گیا۔

Flüchtlingsboot vor der australischen Küste
آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش میں تارکین وطن اپنی جان مشکل میں ڈال دیتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

علی رضا کے ساتھ اس کشتی میں مشتاق بھی سوار تھا۔ اس نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا حقیقی نام ظاہر نہیں کیا بلکہ اپنا فرضی نام بتایا۔ مشتاق کے بقول وہ تین دن تک سمندری لہروں کا مقابلہ کرتا رہا، جس کے بعد اسے ایک امدادی ٹیم نے بچایا۔ اس نے بتایا کہ وہ تین دن تک پیاسا رہا جبکہ سورج کی تیز تپش کی وجہ سے اس کی جلد جل چکی تھی۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد مشتاق کو واپس انڈونیشیا بھیج دیا گیا تاہم وہ ایک مرتبہ پھر کوشش کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر آسٹریلیا پہنچ ہی گیا۔

مشتاق نے اپنی تکلیف دہ کہانی سناتے ہوئے کہا، ’’میں پاکستان میں ہی رہنے کا سوچتا تھا تو مجھے اپنے قتل ہو جانے کا ڈر لگا رہتا تھا اور جب میں سمندر میں بپھری ہوئی لہروں کو دیکھتا تھا تو مجھے مرنے سے خوف آتا تھا۔ موت دونوں ہی طرف میری منتظر تھی۔ لیکن اگر میں آسٹریلیا پہنچ جاتا تو ایک نئی زندگی شروع کر سکتا تھا۔‘‘ مشتاق کے بقول اسی سوچ کے تحت اس نے ایک بار کی ناکام کوشش کے باوجود پھر ایک مرتبہ خود کو غیر قانونی سمندری سفر کے خطرات کے حوالے کر دیا تھا تاہم دوسری بار وہ کامیاب رہا تھا۔