1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومتی غفلت یا دہشت گردوں کی بہتر منصوبہ بندی

تنویر شہزاد، لاہور3 مارچ 2009

پاکستان کا دل کہلانے والے لاہور کے مرکز میں تمام تر سیکیورٹی انتظامات کے باوجود سری لنکا کی ٹیم پر کھلے عام حملہ حکومت ، خفیہ اداروں اور سیکیورٹی صورت حال کے حوالے سے کئی سوالیہ نشانات کا باعث بنا ہے۔

https://p.dw.com/p/H52f
بم ڈسپوزل اسکواڈ کا ایک اہلکار جائے حادثہ پر معائنے میں مصروفتصویر: AP

پاکستان میں منگل کے روز لاہور میں سری لنکا کی ٹیم کے کھلاڑیوں پر ہونے والی فائرنگ کے بعد سیاسی اور صحافتی حلقوں میں دو سوال اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پہلا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حکومت نے مہمان ٹیم کی حفاظت کے لئے مؤثر انتظامات کئے تھے اور دوسرا سوال یہ کہ اگر یہ انتظامات تسلی بخش تھے تو پھر کیا دہشت گرد حکومتی ایجنسیوں سے بھی زیادہ طاقت رکھتے ہیں؟

جرم کی دنیا سے واقفیت رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ منگل کے روز ہونے والی دہشت گردی نے امن و امان کی صورت حال اور اس ضمن میں کی جانے والی حکومتی کاوشوں کے حوالے سے کئی سوالیہ نشان پیدا کر دئیے ہیں۔

دن دہاڑے مسلح پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں، ایک درجن کے لگ بھگ افراد کا دہشت گردانہ اقدام کرنا اور پھر سارے کے سارے دہشت گردوں کا آرام سے فرار ہو جانا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ کسی بھی جگہ پر، واردات کرنا دہشت گردوں کے لئے اب نا ممکن نہیں رہا ہے۔

اس بحث میں تیزی اس وقت آ ئی جب منگل کی شام پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے یہ انکشاف کے کہ سری لنکا کی ٹیم پر ممبئی طرز کے دہشت گردانہ حملوں کی اطلاع خفیہ اداروں کے ذریعے حکومت تک کئی ہفتے پہلے پہنچ چکی تھی۔ خفیہ اداروں کی طرف سے یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو ہوٹل سے اسٹیڈیم جاتے ہوئے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کی پیشگی اطلاع پاکستان کی وفاقی وزارت داخلہ اور دیگر متعلقہ حکام کو بھی موصول ہو چکی تھی۔ اس اطلاع پر کاروائی کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کہتے ہیں کہ ان کی حکومت نے مؤثر اقدامات کرتے ہوئے اہل پولیس افسروں کی ڈیوٹیاں لگا کر کھلاڑیوں کی سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے تھے۔

شہباز شریف یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد گورنر پنجاب نے پولیس کے ان تمام اہل افسران کو تبدیل کر دیا تھا اور حکومتی مشینری امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کی بجائے پیپلز پارٹی کے لئے سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔

ان کے مطابق لبرٹی چوک میں ہونے والی دہشت گردی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پنجاب میں بر سر اقتدار لوگ اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا نہیں کر رہے ہیں۔

یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ خفیہ ادارے واردات سے پہلے دہشت گردوں کو گرفتار کروانے میں ناکام کیوں رہے۔ مبصرین کے مطابق دہشت گردی کی حالیہ واردات پاکستان کے عام آدمی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ عام شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوتا جا رہا ہے کہ اگر سخت سیکیورٹی رکھنے والے خاص مہمانوں کے خلاف دہشت گردی کی واردات ہو سکتی ہے تو پھر عام آدمی کی حفاظت کے لئے کئے جانے والے حکومتی انتظامات کتنے موثر ہونگے؟