1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کا اندراج کیوں نہیں چاہتی؟

امتیاز احمد27 اگست 2015

پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قومی ایکشن پلان کے تحت افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے معاملے پر حکومت ’’آگے گڑھا پیچھے کھائی‘‘ والی صورتحال سے دوچار ہے۔

https://p.dw.com/p/1GMzL
Afghanistan Abschiebung von Bedürftigen aus Pakistan
تصویر: DW/F. Zahir

حکومت ملک کی موجودہ سلامتی کی صورتحال میں ان مہاجرین کی فوری واپسی چاہتی ہے تاہم اقوام متحدہ، عالمی امدادی اداروں، افغان حکومت اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی وجہ سے اسے ایسے کرنے میں مشکلات درپیشں ہیں۔

اس ضمن میں پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے جن نقاط پر پیش رفت سست روی کا شکار ہے ان میں افغان مہاجرین کی واپسی بھی شامل ہے۔

اس ہفتے کے آغاز پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا، ’’مجھے شدید تحفظات ہیں، جو تجویز دی گئی ہے کہ غیر اندراج شدہ مہاجرین کا اندراج کیا جائے۔ میں یہ کرنے نہیں چلا کیونکہ یہ ان کو ایک اور قانونی بنیاد مل جائے گی۔ یہ ایک طرف سے پیسے لے کر جائیں گے اور دوسری طرف سے واپس آجائیں گے۔ ہمارا افغانستان کے ساتھ پورس بارڈر ہے۔‘‘

حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی جانب سے وزارت داخلہ کو تجویز بھجوائی گئی تھی کہ وہ افغان مہاجرین کا اندراج مکمل کریں تاکہ ہر کسی کے کوائف کے بارے میں حکومت کے پاس آگاہی ہو۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے (یواین ایچ سی آر) کے مطابق اس وقت پاکستان میں پندرہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں، جو کسی بھی ملک میں رہائش پذیر مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ تاہم پاکستان میں مہاجرین کے امور سے متعلق ادارے افغان کمشنریٹ کے سربراہ عباس خان کے مطابق پاکستان میں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد بھی لگ بھگ پندرہ لاکھ ہی ہے۔

Afghanistan Abschiebung von Bedürftigen aus Pakistan
تصویر: DW/F. Zahir

قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق صوبہ خیبر پختوانخواہ میں جہاں افغان مہاجریرین کی سب سے زیادہ تعداد آباد ہے، وہاں دہشت گردی کی وارداتوں اور متعدد جرائم میں افغان مہاجرین ملوث ہیں۔ ان رپورٹس کی روشنی میں اس سال جنوری میں دہشت گردی کے خلاف تیار کیے گئے قومی ایکشن پلان میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ یہ ایکشن پلان گزشتہ سولہ دسمبر کو پشاور میں فوج کے زیر انتظام سکول پر دہشت گردانہ حملے میں ڈیڑھ سو طلبا اور اسکول کے عملے کی ہلاکت کے بعد بنایا گیا تھا۔

اس پلان کے نافذ العمل ہونے کے بعد پاکستان کے مخلتف حصوں خصوصاﹰ کے پی کے میں افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا اور غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ابھی تک تقریباﹰ سات ہزار مہاجرین کو جبری طور پر واپس افغانستان بھجوایا گیا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق اس سال ابھی تک پچاس ہزار افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس گئے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے نمائندے افغان مہاجرین کی رضا کارانہ،باعزت اور پروقار واپسی پر زور دیتے آئے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد دوہزار دو سے لے کر اب تک انتالیس لاکھ افغان مہاجرین واپس جا چکے ہیں۔

خیال رہے کہ افغان حکومت نے بھی افغان مہاجرین کی جبری واپسی کا معاملہ پاکستان کے ساتھ اٹھایا تھا اور اس سلسلے میں افغان حکام کے اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کے دورے بھی کر چکے ہیں۔ افغان حکام پاکستانی قیادت کو مہاجرین کی بحفاظت واپسی کے لئے مناسب وقت دینے کی درخواست کرتے رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں سلامتی سے متعلق ادارے ہر صورت مہاجرین کی واپسی چاہتے ہیں۔

پاکستان کی وازرت سرحدی امور کے ماتحت افغان کمشنریٹ کے ادارے کے سربراہ عباس خان کا کہنا ہے، ’’ہمارے مینڈیٹ میں صرف وہ افغان مہاجرین آتے ہیں، جنہیں نادرا نے پروف آف رجسٹریشن نامی کارڈز جاری کر رکھے ہیں اور ان کی تعداد سولہ لاکھ بنتی ہے۔ اکثر مہاجرین جو رضاکارانہ واپس جاتے ہیں، ان کی واپسی کے لئے ہر ممکن سہولت مہیا کی جاتی ہے اور جو یہاں رجسٹر مہاجرین رہ رہے ہیں ان کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اگر غیر اندراج شدہ مہاجرین کا اندراج ہو جائے تو یہ بلکل ایسے ہی ہوگا کہ ایک عمارت کے اندھیرے گوشے میں روشنی کر دی جائے تو وہاں موجود ہر چیز واضح ہو جائے گی۔