حبیب جالب، عوام کے دلوں پر راج کرنے والا شاعر
23 مئی 2016حبیب جالب 28 فروری 1928ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھنے والے اس شاعر نے غربت کی کوکھ سے جنم لینے کے باجود اپنی عزت نفس اور خود داری کو کسی حاکم وقت کے ہاتھ بکنے نہیں دیا۔
یہ حبیب جالب ہی کی جرات مندانہ طبیعت تھی جس نے ان سے جنرل ضیا الحق کے دور میں ایسے مصرعے کہلوائے۔
ظلمت کو ضیاء، صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم، اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
جمہوریت کے لیے حبیب جالب کی تگ و دو اور ان کی شخصیت پرمعروف شاعر اور مقرر افتخار عارف نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حبیب جالب غالبا وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے بہت بے باکی اور جرات مندی سے آمرانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی اور تاریخ کے سامنے اہل قلم کو شرمندہ ہونے سے بچا لیا۔
افتخار عارف کا کہنا تھا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی جب حبیب جالب کا نام آتا ہے تو صرف اہل قلم ہی نہیں بلکہ تمام پسماندہ طبقات کے افراد سمیت وہ لوگ جو انسانی ضمیر کوزندہ رکھنے کی کوشش میں جدوجہد کرتے رہتے ہیں وہ آج بھی ان کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ حبیب جالب نے قلم کی حرمت کو برقرار رکھا۔‘‘
ڈی ڈبلیو کے اس سوال کے جواب میں کہ وہ نظمیں جو حبیب جالب نے آمرانہ دور حکومت میں لکھیں، کیا ان کا پیغام آج کے نام نہاد جمہوری طرز حکومت پر بھی لاگو ہوتا ہے یا نہیں، افتخار عارف کا کہنا تھا
معروف شاعرہ کشور ناہید نے بھی حبیب جالب کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے ان کے فن اور زندگی پر بات چیت کی۔
کشور ناہید نے اس دور کو یاد کرتے ہوئے، جب حبیب جالب فاطمہ جناح کے جلسوں میں نظمیں پڑھا کرتے تھے، آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا کہ جالب نظم پڑھتے تو ہزاروں کے مجمع میں ایسی خاموشی چھا جاتی، جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اور بس یہی ان کی لازوال عوامی شہرت کا نقطہ آغاز تھا۔
کشور ناہید نے حبیب جالب کی غربت اور کسمپرسی کی زندگی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی کسی کے سامنے دست طلب دراز نہیں کیا یہاں تک کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے دورحکومت میں ان کی جانب سے مالی اعانت کی پیش کش کو بھی ٹھکرا دیا۔
کشور ناہید نے حبیب جالب کی جیل سے رہائی کا ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جس دن جالب کو رہا ہونا تھا، کشور اپنے شوہر کے ہم راہ انہیں لینے پہنچیں۔ کافی وقت گزرنے کے بعد بھی حبیب باہر نہ آئے تو معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ جالب مصر تھے کہ ان کے ساتھ دیگر گرفتار ہوئے لڑکوں کو بھی رہا کیا جائے ورنہ وہ بھی احتجاجا رہا نہیں ہوں گے۔ اور بالآخر جیل حکام کو ان لڑکوں کو بھی رہا کرنا پڑا۔
افتخارعارف کی رائے میں ایسا نہیں تھا کہ حبیب جالب نے محض احتجاجی شاعری کی اور وہ رومانوی طرز کی خالص شاعری کے قابل نہیں تھے بلکہ ان کی شروع کی غزلوں اور گیتوں کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے شعری سفر کے آغاز میں رومانوی چیزیں بھی لکھتے تھے۔ لیکن پھر بدلتے ہوئے ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے جالب نے اپنا شعری اسلوب بدل ڈالا۔
آج بھی جبر کے ایوانوں میں ان کے یہ اشعار مظلوموں کا حوصلہ بندھائے ہوئے ہیں۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا