1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جیو کی نشریات کیا فوج کے کہنے پر بند کی گئیں؟

عنبرین فاطمہ عبدالستار
3 اپریل 2018

پاکستان میں فوج کو اکثر تنقید کا نشانہ بنانے والے جیو ٹی وی چینل کی نشریات کو ملک کے کئی علاقوں میں معطلی کا سامنا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کیبل آپریٹرز نے ’فوج کی جانب سے دباؤ‘ کے باعث نشریات معطل کی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2vQJY
Protest gegen Geo TV in Lahore Pakistan 20.04.2014
تصویر: picture-alliance/Rana Sajid Hussain/Pacific Press

جیو ٹی وی کے حکام کے مطابق کئی علاقوں میں اس چینل کی نشریات بند کرنا در اصل  میڈیا اداروں کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش ہے۔ گو کہ دیگر ملکی نیوز چینلز سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم نواز شریف پر تنقیدی نقطہ نگاہ رکھتی ہیں، جیو ٹی وی نواز شریف کے حامی نظریات کا حامل ادارہ سمجھا جاتا ہے۔

وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ نشریات کی پابندی حکومتی احکامات کی روشنی میں کی گئی ہے تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ملک کے اکثر علاقوں میں نشریات کیوں بند ہے؟

جیو ٹی وی کی جانب سے ان کی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے، ’’پاکستان کا آئین اور قانون اپنے شہریوں کو معلومات تک رسائی کے حق کا ضامن ہے۔ جنگ گروپ اپنے صارفین سے گزارش کرتا ہے کہ اگر وہ اپنے ٹی وی پر جیو نیوز کی نشریات نہیں دیکھ پا رہے یا پھر جیو کے چینل اپنے مختص کردہ نمبر کے بجائے کسی اور چینل نمبر پر منتقل کر دیے گئے ہیں، یا پھر انہیں جنگ یا دی نیوز روزنامے کی کاپیاں نہیں موصول ہو رہیں تو وہ اس حوالے سے اپنی شکایات درج کروائیں۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ ماضی میں بھی جیو ٹی وی اور جنگ میڈیا گروپ کو بندش کا سامنا رہا ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود گزشتہ چند برسوں سے یہ چینل فوج کو زیادہ سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق جیو ٹی وی اور فوج میں یہ رسہ کشی نا اہل قرار دیے گئے وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت کے حوالے سے ہے، جو گزشتہ چند برسوں سے نہ صرف فوجی عہدیداروں بلکہ اعلیٰ عدالتی حکام کو چیلنج کرتے آئے ہیں۔  

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ نگار احسن رضا ڈی ڈبلیو کے نمائندے عبدالستار سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جیو ٹی وی اس وقت نواز شریف کے اس موقف کی حمایت کر رہا ہے جو ان کے لیے آنے والے انتخابات میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ چینل مبینہ طور پر فوج کے حمایت یافتہ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے حوالے سے بھی سخت نظریات رکھتا ہے۔ اس لیے اس ٹی وی چینل کی رپورٹنگ کا انداز ان لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں جو نواز شریف کی سیاسی طاقت میں کمی چاہتے ہیں۔ ‘‘

Pakistan Anhänger des Ex-Premierministers Nawaz Sharif
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار توصیف احمد خان بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’سوائے چند انگریزی اخبارات اور جنگ میڈیا گروپ کے، بیشتر میڈیا ادارے نواز شریف کے ناقد اور فوجی نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ عسکری اسٹیبلیشمنٹ کو یہ خوف ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں نواز شریف اب بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور جیو نیوز ان کے ایجنڈے کو تقویت دے رہا ہے۔ میرے خیال سے اس ادارے کی نشریات کی معطلی میں ایک یہ وجہ بھی کارفرما ہے۔ ‘‘

جیو ٹی وی نیٹ ورک کے سربراہ عمران اسلم کے مطابق اب تک اس چینل کی نشریات بند کرنے سے متعلق کوئی با ضابطہ تصدیق سامنے نہیں آئی ہے تاہم ملک بھر میں اس کی نشریات میں تعطل سامنے آیا ہے،’’ یہ آزادی اظہار رائے پر حملہ ہے۔‘‘

نیوز چینلز کے بندش سے فائدہ ہوا یا نقصان؟

پاکستان، حکومت مخالف نیوز چینل پر پابندی

واضع رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جیو کے چینلز کی بندش کا نوٹس لیتے ہوئے کیبل آپریٹرز کو 24 گھنٹوں میں تمام چینلز کو اصل پوزیشن پر بحال کرنے کی ہدایت کی ہے۔

 پیمرا کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی نے کسی بھی چینل کی بندش یا پوزیشن کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی احکامات جاری نہیں کیے اس لیے کسی بھی لائسنس یافتہ ٹی وی چینل کی بندش پیمرا قوانین کی خلاف ورزی ہے۔