1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ زدہ شام: دو سہیلیوں کا ایک شوہر

صائمہ حیدر12 ستمبر 2016

شام میں خونریز جنگ شروع ہونےکے بعد سے ملک میں دوسری شادی اور طلاق کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ایسی ہزاروں خواتین جن کے شوہر جنگ میں ہلاک ہو گئے ہیں، معاشی اور سماجی تحفظ کے لیے دوسری شادی کرنے پر مجبور ہیں۔

https://p.dw.com/p/1K0Uz
Syrien Zivilbevölkerung bei Aleppo
بیوہ شامی خواتین سماجی اور معاشی تحفظ کے لیے دوسری شادی کرنے پر مجبور ہیںتصویر: Reuters/A. Ismail

اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد دو بچوں کی ماں ماہا نے پہلے سے شادی شدہ شخص سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ماہا دمشق کے قریب اس علاقے میں مقیم ہیں جہاں حکومت اور باغیوں کے درمیان شدید جنگ ہو تی رہی ہے۔ اکتیس سالہ ماہا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے بتایا ،’’ اپنے شوہر کی جنگ میں ہلاکت کے بعد دو بچوں کے ساتھ تنہا رہنا بہت مشکل تھا۔‘‘ ماہا نے مزید کہا کہ یہی وجہ تھی کہ جب اس کے کزن نے شادی کی پیشکش کی تو اس نے قبول کر لی۔ یہ ایک مشکل فیصلہ اس لیے بھی تھا کہ اس کے کزن کی پہلی بیوی اس کی بہت اچھی دوست بھی تھی۔ اب ماہا اپنے کزن کی پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔

شام میں مارچ سن دو ہزار گیارہ سے شروع ہونے والے تنازعے میں اگلی صفوں پر لڑتے ہوئے ہزاروں شامی مرد جنگ کی نذر ہو چکے ہیں اس کے علاوہ بہت سے ایسے ہیں جنہیں ملک چھوڑنا پڑا یا پھر وہ لاپتہ ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال میں شام میں طلاق اور دوسری شادی کی شرح عروج پر ہے۔ شام کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں دوسری شادی کی شرح تیس فیصد ہو گئی جبکہ سن دو ہزار دس میں یہ شرح محض پانچ فیصد تھی۔ ماہا کے موجودہ شوہر محمد نے اے ایف پی کو بتایا،’’ اب یہاں مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ ہیں۔ میں نے اور میرے چار دوستوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم کسی بیوہ سے شادی کریں گے تاکہ اس کی عزت کی حفاظت کی جا سکے۔‘‘

Syrien Zivilbevölkerung in einem Krankenhaus in Idlib
شوہروں کے جنگ میں ہلاک ہونے کے بعد خواتین کے لیے بچوں کی پرورش مشکل ہےتصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour

یاد رہے کہ شام میں دو لاکھ نوے ہزار سے زائد افراد جنگ میں مارے جا چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ شام سے ہجرت کر کے پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ شام میں شادی، طلاق اور وراثت سے متعلق قوانین مذہب سے اخذ کیے گئے ہیں۔ آج کل مسلم ممالک میں متعدد ازواج کا رواج بہت کم دیکھنے میں آتا ہے اور کئی مسلم ممالک اس پر پابندی لگا رہے ہیں۔ شام میں بھی ایسی کچھ پابندیاں عائد ہیں۔ مثلاﹰ فریقین کی عمر میں فرق پر حد قائم کی گئی ہے مزید یہ کہ آیا شوہر اپنی بیوی کو الگ گھر میں رکھنےکے مجاز ہیں۔؟

شام میں سرکاری حکام کے مطابق جنگ کے نتیجے میں طلاقوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سن دو ہزار دس میں پانچ ہزار تین سو اٹھارہ طلاقیں رجسٹر ہوئی تھیں جبکہ سن دو ہزار پندرہ میں پچیس فیصد اضافے کے ساتھ طلاق کے سات ہزار کیسز رجسٹر کیے گئے۔ بعض صورتوں میں شوہر نے کسی غیر ملکی خاتون سے شادی کے بعد اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی اور بعض صورتوں میں یہ بھی ہوا کہ بیویوں نے شام سے ہجرت کے بعد اپنے اٰن شوہروں کو چھوڑ دیا جو شام میں رہ گئے تھے۔