جنوبی کوریا میں انٹرنیٹ پردھمکیاں دینے کا رجحان
23 فروری 2010جنوبی کوریا میں انٹرنیٹ صارفین کو دھمکیاں دینے کا یہ رجحان اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اس وجہ سے چند مقامی اداکارائیں خودکشی بھی کر چکی ہیں۔جنوبی کوریا میں ایسے جارحانہ پیغامات کی ایک مثال گزشتہ سال نومبر میں دیکھنے میں آئی جب ایک مقامی خاتون نے ایک مشہور ٹی وی شو میں چھوٹے قد والوں مردوں کے خلاف ایک متنازعہ بیان دے دیا۔
اس بیان کے بعد کسی طرح اِس خاتون کا ای میل ایڈریس بھی کسی کے ہاتھ لگ گیا اور پھر شکایات اور دھمکیوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس پر بیان دینے والی خاتون کو مجبورا اپنے ہم وطنوں سے معافی مانگنا پڑی۔
Gossip Beauties کہلانے والے اس ٹی وی شو میں ایک جرمن خاتون Vera Hohleiter بھی شریک تھیں اور اسی شو میں شرکت کی وجہ سے انہیں بھی انٹرنیٹ پر دھمکیاں ملنے لگیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے:
’’یہ مسئلہ بہت سنگین ہے اور میڈیا میں اس پر بہت بحث کی جا رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر جارحانہ پیغامات پھیلانے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے، جو ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ جنوبی کوریائی ذرائع ابلاغ اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔‘‘
گزشتہ سال جولائی میں ویرا کی ایک جرمن کتاب کے کچھ حصوں کا ترجمہ جرمنی میں رہنے والی ایک جنوبی کوریائی طالبہ نے غیر مستند انداز میں کیا اوربعد ازاں یہ ترجمہ اپنے انٹرنیٹ بلاگ پر پوسٹ بھی کر دیا۔ اس کے بعد ویرا پر آن لائن تنقید کی بارش شروع ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے تو اس جرمن خاتون کو قتل کی دھمکیاں بھی دیں۔ لیکن ایسے جنوبی کوریائی باشندے بھی تھے، جنہوں نے اِس مشکل وقت میں اُس کی حمایت کی۔
ویرا نے اس تنازعے کے دوران پیش آنے والے مسائل کے بارے میں کہا: ’’جب ترجمہ کی وجہ سے یہ مسئلہ چل رہا تھا، میں بمشکل ہی عوامی مقامات پر جا سکتی تھی۔ میں صرف کام کے لئے ریڈیو جایا کرتی تھی اور جب کبھی بھی میں باہر جاتی، مجھے ٹیکسی لینا پڑتی تھی۔ ٹیکسی لینے کا مشورے میرے کوریائی دوستوں کا تھا۔ میری ایک دوست کا کہنا تھا کہ اگر میں میٹرو استعمال کروں گی، تو اُسے میری سلامتی کی بڑی فکر لگی رہے گی۔‘‘
ویرا کے مطابق بعد میں جب ایک ناشر نے اس کتاب کا صحیح ترجمہ چھاپا تو زیادہ تر کوریائی باشندوں نے اس مستند ترجمے کو پڑھنے کی زحمت ہی نہ کی۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: مقبول ملک