1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی وزیرستان سے بھی نقل مکانی شروع

فرید اللہ خان، پشاور1 جون 2009

کشیدگی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے جنوبی وزیرستان کے لوگوں نے سرحدکے ضلع ٹانک ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان نقل مکانی شروع کردی ہے۔

https://p.dw.com/p/I1gF
فوج اور طالبان کی شدید لڑائی کے دوران تباہ ہونے والے شہر مینگورہ کا ایک منظرتصویر: AP

قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان اور سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران مزید اٹھارہ عسکریت پسند ہلاک کئے گئے ہیں جبکہ جھڑپوں میں سیکیورٹی فورسز کے دو اہلکار ہلاک اور چار شہری زخمی ہوگئے ہیں۔ سوات کے علاقے کبل اور چارباغ میں سیکورٹی فورسز کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ ان علاقوں میں مجموعی طور پر اکیس مشتبہ افراد گرفتار کئے گئے ہیں۔

ادھر صوبہ سرحد کے جنوبی ضلع کوہاٹ کے ایک بس سٹینڈ پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں چار افراد ہلاک جبکہ سولہ زخمی ہوئے ہیں۔ تاحال کسی گروہ نے اس دھماکہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

جنوبی وزیرستان میں اُس وقت جھڑپیں شروع ہوئیں، جب گزشتہ روز عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ پر راکٹ داغے۔ اِس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی۔ گزشتہ روز کی ان جھڑپوں میں دونوں طرف سے اکتیس افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں چھ سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ ان نعشوں کواٹھانے کیلئے محسود قبائل کا جرگہ شروع ہوگیا ہے تاہم کشیدگی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے جنوبی وزیرستان کے لوگوں نے سرحدکے ضلع ٹانک، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف نقل مکانی شروع کر دی ہے۔

دوسری جانب ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ مینگورہ کو عسکریت پسندوں سے صاف کر دیا گیا ہے جبکہ کرفیو میں نرمی کی گئی ہے۔ اسی طرح ضلع بونیر کے 90 فیصد علاقے کوصاف قرار دے کر سرکاری ملازمین اور عوام کو واپس آنے کیلئے کہاگیا ہےتاہم ملازمین کی بڑی تعداد نے غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے حکومتی احکامات کونظرانداز کیا، جس پر چار افسران سمیت سولہ پولیس اہلکاروں اور 130سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا گیا۔

Flüchtlinge in Pakistan
سوابی کے کیمپ ’’چھوٹا لاہور‘‘ میں پناہ گزین کھانے پینے کی اَشیاء کے انتظار میںتصویر: AP

نقل مکانی کرنے والے شہری غیر یقینی صورتحال اور سہولیات کے فقدان کے باعث واپس جانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ نقل مکانی کر کے پشاور میں رہائش اختیار کرنیوالے عبدالغنی کا کہناہے:”اب بھی وہاں امن نہیں ہے۔ حکومتی دعووں کا اعتبار نہیں ہے۔ اگر امن آ بھی جائے تو وہاں پانی، بجلی اور ادویات سمیت دیگر ضروریات زندگی نہیں ہیں۔ ہمارے گھر بمباری میں تباہ کر دیے گئے۔ اب ہم وہاں جا کر کھلے آسمان تلے کس طرح رہ سکتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ کیمپوں ہی میں رہیں۔“

ادھر مینگورہ میں کرفیو میں نرمی کے بعد وہاں ایک ماہ سے محصور شہری دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں بجلی، پانی، ادویات اوراشیائےضرورت نہیں ہیں۔ ایک ماہ کا عرصہ انہوں نے سختیاں برداشت کیں۔ تاہم اب وہ اپنے بچوں کو بھوک اور پیاس سے نہیں مار سکتے۔ یہاں رہنے سے بہتر ہے کہ وہ کیمپوں میں جا کر رہائش اختیار کریں۔سیکیورٹی فورسز کی طرف سے دیگر علاقوں دمبڑ کنڈاﺅ اور پیوچار میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران انکے متعدد ٹھکانے تباہ کر دیے گئے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف جار ی فوجی آپریشن کے ردعمل میں صوبہ سرحد کے دیگرا ضلاع اور بالخصوص پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن وامان کی صورتحال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ جنوبی وزیرستان، جو گذشتہ عرصے سے پرامن چلا آ رہا تھا، وہاں اب تیزی سے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ جنوبی وزیرستان کے لوگوں نے بڑی تعداد میں سرحدی اضلاع سے نقل مکانی کی ہے۔ ان لوگوں نے صوبہء سرحد کے جنوبی اضلاع میں پناہ لینا شروع کر دی ہے۔

دوسری طرف عسکریت پسند بھی متحرک ہو چکے ہیں۔ وزیرستان میں تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود نے اگلے چند روز میں بڑی کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کوہاٹ بم دھماکے کے بعد ضلع بنوں سے فوج کے زیرانتظام چلنے والے کیڈٹ کالج رزمک کے طلباء اور اساتذہ کی بس کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ رزمک شمالی اور جنوبی وزیرستان کے بیچ واقع ہے، جہاں فوج کے زیرانتظام کیڈٹ کالج کو پیر کو ہی گرمیوں کے چھٹیوں کیلئے بند کر دیاگیا تھا۔ کالج بند ہونے کے بعد طلباء اور اساتذہ گھر واپس جا رہے تھے کہ اس دوران ان کی بس مسلح افراد نے اغوا کر لی اور اُسے وزیرستان کی طرف لے گئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد وزیرستان میں بڑا آپریشن متوقع ہے۔