1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا کے حالات جرمن پریس کی نظر میں

25 ستمبر 2011

جنوبی ایشیا کے حالات واقعات پر جرمن زبان کے اخبارات میں شائع ہونے والے تبصروں میں اس مرتبہ بھارتی ریاست گجرات کے متنازعہ وزیر اعلی نریندر مودی کی بھوک ہڑتال کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/12g0n
گجرات کے وزیر اعلٰی نریندر مودیتصویر: AP

ریاست گجرات کے وزیر اعلٰی نریندر مودی ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ہندو قوم پرستوں کے رہنما کے طور پر تین روزہ بھوک ہڑتال کی۔ مودی گزشتہ دس برسوں سے ریاست گجرات کے وزیراعلی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2002ء میں  ہندو مسلم فسادات کے دوران اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کی تھیں۔ ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔ برلن سے شائع ہونے والا برلینر زائیٹنگ اپنے تبصرے میں لکھتا ہے کہ اس وقت سے اب تک گجرات میں ہونے والی اس قتل و غارت گری کی نہ تو وضاحت کی گئی اور نہ ہی کسی شخص کو قصور وار ٹھہرایا گیا۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ مودی کے حامی کہتے ہیں کہ گزشتہ دس برسوں سے گجرات میں فسادات کاکوئی نیا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ جب کے ان کے مخالفوں کا کہنا ہے کہ مودی نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ اور انہوں نے دوبارہ پرانی کہانی دہرانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اتوار کو مسلمانوں کی دی ہوئی ٹوپی پہننے سے صاف انکار کر دیا۔ حالانکہ اس سے قبل وہ اپنے حامیوں کی جانب سے دی جانے والی ہر طرح کی ٹوپیاں اور پگڑیاں پہن چکے ہیں۔

فرانکفٹر الگمائنے اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ مہینوں کے دوران منظر عام پر آنے والے بدعنوانی کے واقعات، عوام کے احتجاج اور حکومت کے سست ردعمل نے بھارتی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اخبار کے بقول اس کا نتیجہ صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ اعداد و شمار میں بھی واضح طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان واقعات کے بعد بیرونی سرمایہ کاری میں ایک دم کمی واقع ہوئی ہے۔ افراط زر کی وجہ سے تنخواہوں میں اضافےکا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ کچھ شعبوں میں تو پانچ سے اسیّ فیصد زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا کوئی بھی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا ہے۔ اس طرح امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔

اُدھرسابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد افغانستان میں دیرپا امن قائم ہونے کی امید کوسوں دور چلی گئی ہے۔ زوڈ ڈوئچے زائٹنگ لکھتا ہےکہ اس صورتحال میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کا کردار ایک مرتبہ پھر اہم ہوگیا ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ یہ امر واضح ہونے کے بعد کہ طالبان کو جنگ کے ذریعے شکست نہیں دی جا سکتی، بات چیت کے عمل میں اسلام آباد کی شمولیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ ساتھ ہی بھارت اور ایران کو شامل کیے بغیر بھی افغانستان میں امن قائم کرنا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اخبار کے بقول امریکی حکومت ابھی تک افغانستان کے لیے اس نوعیت کی کسی سفارتی کوشش میں ناکام رہی ہے۔

 

Afghanistan Staatsbegräbnis für Ex-Präsident Rabbani in Kabul
’’برہان الدین ربانی کے قتل سے افغانستان میں دیرپا امن قائم ہونے کی امید متاثر ہوئی‘‘تصویر: dapd

امریکہ نے پاکستان پرکابل کے انتہائی حساس علاقے میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ واشنگٹن حکام کے بقول یہ حقانی نیٹ ورک کی کارستانی ہے۔ اخبار ٹاگس اشپیگل لکھتا ہے حقانی نیٹ ورک امریکہ کا ایک خطرناک دشمن ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت ہو، جس پر بھارت کا اثر و رسوخ محدود ہو۔ برطانوی اخبار ٹائمز نےکابل میں ہونے والے حملے سےکچھ عرصہ قبل لکھا تھا امریکہ نے اس بات پر رضامندی ظاہر کر دی تھی کہ طالبان اپنے سربراہ ملا عمرکے ساتھ قطر میں ایک دفتر کھول سکتے ہیں۔ ٹائمزکے بقول اس کا مقصد طالبان پر پاکستانی اثر و رسوخ کم کرنا ہے۔ اس اقدام سے پاکستانی حکام میں خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں انہیں مذاکراتی عمل سے باہر نہ نکال دیا جائے۔ اخبار ٹاگس اشپیگل لکھتا ہےکہ کابل میں ہونے والا یہ حملہ امریکہ اور نیٹو پر یہ باور کرانے کی کوشش بھی ہو سکتا ہےکہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

بھارتی ریاست تامل ناڈو میں اگلے پانچ سالوں کے دوران چھ اعشاریہ آٹھ ملین لیپ ٹاپس تقسیم کیے جائیں گے۔ یہ کمپیوٹر سرکاری اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کو بطور تحفہ دیے جائیں گے۔ نیو زیورشر زائٹنگ لکھتا ہے کہ اس منصوبے پر دو ارب یورو لاگت آئے گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی کے مسائل کی وجہ سے طلبہ کو یہ لیپ ٹاپس استعمال کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تامل ناڈو میں چنئی کے علاوہ زیادہ تر شہروں میں بجلی صرف چند گھنٹوں کے لیے دستیاب ہوتی ہے۔ ریاست کے وزیر تعلیم کے بقول اس منصوبے کا سیاست سےکوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ ان کی حکومت چاہتی ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی کمپیوٹر تک رسائی ہو۔

 

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید