1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا: عدلیہ کی غریبوں کو قانونی طور پر بااختیار بنانے کی کوشش

4 مارچ 2011

جنوبی ایشیا، بالخصوص بھارت اور پاکستان میں عدلیہ کے سرگرم کردار نے جہاں قانون کی حکمرانی سے متعلق عوامی اعتماد کو مستحکم کیا ہے وہیں ان ملکوں کے غریب عوام کو بالآخر انصاف مل جانے کی امیدیں بھی جاگ گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/10TWo
پاکستان اور بھارت کے غریب عوام انصاف کے منتظر ہیںتصویر: AP

پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اور دیگر معاملات میں عدلیہ نے جو سرگرم رول ادا کیا اور انتظامیہ کے مبینہ ارادوں اور اقدامات پر جس طرح قدغن لگائی، اس سے عوام میں عدلیہ کا وقار خاصا بلند ہوا ہے۔ اسی طرح بھارت میں عدالت عظمیٰ نے بدعنوانیوں پر نگاہ رکھنے والے ملک کے سب سے اعلیٰ افسر یا سنٹرل ویجیلنس کمشنر پی جے تھامس کی ان کے عہدے پر تقرری کو منسو خ کرنے یا ٹیلی کوم کے سابقہ مرکزی وزیر اے راجہ کو بے ضابطگیوں کے الزام میں جیل بھیجنے کا فیصلہ سنا کر عدلیہ سے متعلق عوام کے اعتماد کو مستحکم بنایا ہے۔

گو ان اقدامات سے غریب عوام کو بھی انصاف ملنے کی امیدیں پیدا ہوئی ہیں لیکن ان چند بڑے واقعات کو چھوڑ دیا جائے، تو ان دونوں ہمسایہ ملکوں میں ایسے ان گنت معاملات موجود ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ انصاف حاصل کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں اور اب بھی ‘جس کی لاٹھی، اسی کی بھینس‘ کی کہاوت ہی سچ نظر آتی ہے۔

بہر حال بھارت اور پاکستان کے ماہرین قانون او ر سابقہ ججوں نے نئی دہلی میں ایک دو روزہ میٹنگ میں غریبوں کو انصاف دلانےاور انہیں قانونی لحاظ سے بااختیار بنانے کے امکانات اور طریقوں پر غور کیا۔ بھارت پاکستان جوڈیشل کمیٹی کے ایک رکن اور پاکستان میں سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ غریبوں کو انصاف دلانا ہر ملک میں وہاں کی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن برصغیر میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی حکومتیں اپنی یہ ذمہ داری انجام نہیں دے رہیں۔

Oberstes Gericht in Indien
بھارت کی عدالت عظمٰی،فائل فوٹوتصویر: Wikipedia/LegalEagle

انہوں نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ غریبوں کو انصاف کے دروازے تک پہنچنے سے روکنے کے لیے خود بہت سے حربے اپناتی ہیں۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد نے کہا کہ چونکہ حکومتیں اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں، اس لیے ایسے میں یہ سول سوسائٹی کے ذمہ داری بنتی ہے کہ غریبوں کو انصاف فراہم کیا جائے۔

جسٹس ناصر اسلم زاہد نے کہا کہ غریبوں کو قانونی لحاظ سے بااختیار بنانے کے معاملے میں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی حالت بہت ہی خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ملکوں کی مجموعی آبادی ڈیڑھ ارب ہے، جو پوری دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے جبکہ آدھے لوگ غریب ہیں۔ یعنی وہ خط افلاس سے نیچے رہتے ہیں۔ ایسے میں باآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غریبوں کے لیے انصاف کا حصول کتنا مشکل ہے۔

جسٹس ناصر اسلم زاہد نے کہا کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غریبوں کو کسی کیس میں وکیل فراہم کر دینا یا انہیں عدالت تک پہنچانے میں مدد کر دینا ہی انہیں قانونی لحاظ سے بااختیار بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریبوں کو لیگل امپاورمنٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی غریب ہے، اسے اس کا حق دلایا جائے، جو بے روزگار ہے اسے روزگار دلایا جائے، جو تجارت کرنا چاہتا ہے اسے تجارت کرنے کا حق دلایا جائے، جس کے پاس رہنے کے لیے مکان نہیں ہے اسے رہائش کا حق دلایا جائے، اور اس کے لے جو تگ و دو کی جاتی ہے، اسے ہم غریبوں کو لیگل امپاورمنٹ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔

اس کانفرنس میں شرکاء نے فیصلہ کیا کہ ایسے وکلاء یا قانونی امداد فراہم کرنے والے گروپوں کی مدد کی جائے گی، جو مفاد عامہ کے معاملات پر توجہ دیتے ہیں اور جو غریبوں اور پسماندہ طبقات کو قانونی امداد فراہم کرتے ہیں۔ اس کانفرنس نے گاؤں کی سطح پر قانونی امداد فراہم کرنے والوں سے بھی تعاون کا فیصلہ کیا تاکہ غریبوں کو قانونی لحاظ سے بااختیار بنانے کے عمل کو مکمل اور تکنیکی سطح پر مستحکم بنایا جا سکے۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں