1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جندر‘ کے ذریعے بجلی کا بحران ختم ہو سکتا ہے

عدنان اسحاق1 جون 2015

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے ارشد راشد کا خیال ہے کہ وہ پاکستان میں توانائی کے بحران کو ختم کر سکتے ہیں۔ ارشد راشد اس سلسلے میں پن چکیوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Fa0W
تصویر: Jan Zalud-CC BY-NC-SA 2.0

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پن چکیوں کے نظام کو ’جندر‘ کہا جاتا ہے۔ کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے پچاس کلومیٹر دور واقع گاؤں ’کتاہی‘ کہ باسی اسی نظام یعنی پن چکیوں کے ذریعے ہی گندم اور مکئی پیستے ہیں۔ اس علاقے کے رہائشی ارشد راشد کہتے ہیں کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جندر صدیوں سے زیر استعمال ہے اور اس میں پتھروں اور مٹی کو کاٹتے ہوئے پانی کا راستہ بنایا جاتا ہے۔ ارشد راشد کہتے ہیں کہ جندر کے ذریعے شفاف طریقے سے مفت بجلی بھی بنائی جاسکتی ہے۔

38 سالہ راشد کہتے ہیں کہ اگر ہر ایک پن چکی کو ایک چھوٹے سے ٹربائن کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تو بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی اور اس طرح لوڈشیڈنگ پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ گزشتہ کچھ برسوں سے موسم گرما کے دوران آزاد جموں و کشمیر کو بجلی کے شدید بحران کا سامنا رہتا ہے۔

Wassermühle in Prisoje
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پن چکیوں کے ذریعے لوگ گندم اور مکئی پیستے ہیںتصویر: DW / Pirolic

ارشد راشد کے بقول، ’’پن چکیوں کو پانی پہنچانے والے راستے گاؤں کے لیے بجلی بنانے کے کام آ سکتے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یہ خیال قریب لگے ہوئے ایک بڑے پن بجلی گھر کو دیکھ کر آیا، جس میں بڑے بڑے ٹربائن نصب ہیں۔ ’’اس طرح پیدا کی جانے والی اضافی بجلی حکومت کو فروخت بھی کی جا سکتی ہے۔‘‘

آزاد جموں و کشمیر یا اے جے کے کو مسلسل توانائی کی کمی کا سامنا ہے، حالانکہ یہ علاقہ اپنی ضروریات سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے۔ اے جے کے کے توانائی کے محکمے کے سیکرٹری فیاض علی عباسی کہتے ہیں، ’’ہماری ضرورت تین سو میگا واٹ ہے جبکہ ہم تقریباً ساڑھے گیارہ سو میگا ووٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔‘‘ ارشد راشد کے مطابق بڑے بڑے منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو پن چکیاں بنانے والوں کو ان کے جندروں پر چھوٹے ٹربائن لگانے میں مدد کرنی چاہیے۔ ’’اس طرح کے ایک ٹربائن پر پانچ لاکھ پاکستانی روپے تک لاگت آئے گی۔ لیکن ابھی تک ہمیں اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں ملی۔‘‘

مظفر آباد کے ایک قریبی گاؤں کے مسکین قریشی نامی ایک شخص نے اپنے جندر پر خود ہی بنایا ہوا ایک ٹربائن اور بجلی کو منتقل کرنے کے لیے ایک موٹر نصب کر رکھی ہے۔ قریشی نے بتایا کہ ٹربائن نصب کرنے میں ان کے بیٹے نے ان کی مدد کی جبکہ پڑوسی گاؤں کے ایک رہنما نے انہیں ایک چھوٹی سی موٹر فراہم کر دی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ٹربائن سے پیدا ہونے والی بجلی کو تانبے کی تاروں کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ تانبہ ٹیلیفوں کی پرانی تاروں سے حاصل کیا گیا ہے۔ مسکین قریشی کے بقول گھریلو سطح پر بجلی کے اس نظام کی تنصیب پر انہوں نے پچاس ہزار روپے خرچ کیے۔