جمہوریہ چیک: لزبن معاہدے پر رائے شماری کا امکان
6 مئی 2009چیک جمہوریہ کی سیاسی جماعتوں میں لزبن معاہدے پر سخت اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ملک کے صدرواسلاؤ کلاؤس معاہدے کے مخالفین میں سے ہیں۔ حال ہی میں وزیرِ اعظم میریک ٹوپولانک کی حکومت پارلیمان میں عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بعد ختم ہوگئی تھی۔ چیک جمہوریہ کی عوام بھی اس معاہدے سے مطمئن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ چیک جمہوریہ اور آئرلینڈ سمیت ستائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے کئی ممالک لزبن معاہدے کی مخالفت کررہے ہیں۔ مخالفت کرنے والوں زیادہ تر یورپی یونین کے چھوٹے ممالک ہیں جن کو خطرہ ہے کہ لزبن معاہدہ ان کے مفادات کی نگہبانی نہیں کرتا ہے۔ معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے لیے یونین کے تمام ستائیس ممالک کا اس کو منظور کرنا لازمی ہے۔
لزبن معاہدہ عمومی طور پر یہ طے کرتا ہے کہ یورپی یونین کے ممالک ایک مرکزی نظام اور حکومت کے واسطے کس حد تک قومی خودمختاری کو ترک کرنے پر تیّار ہیں۔
وزیرِ اعظم ٹوپولانک معاہدے کے سب حامیوں میں سے ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ اقتدار سے رخصت ہورہے ہیں، انہوں نے پارلیمان کے ایوانِ زیریں سے معاہدے کو سینیٹ میں بھجوانے کے لیے مطلوبہ ووٹ حاصل کرلیے ہیں۔ چیک جمہوریہ کی سینیٹ کے اکیاسی اراکین میں سے انچاس کا اس معاہدے کو منظور کرنا ضروری ہے۔
اگر چیک جمہوریہ کی سینیٹ لزبن معاہدے کو منظور کرلیتی ہے تب بھی یہ بات یقین سے نہیں کہا جاسکتی کہ چیک جمہوریہ کے صدر کلاؤس اس پر دستخط کریں گے یا نہیں؟
پولینڈ میھ اس کی ایک مثال ملتی ہے کہ وہاں معاہدے کی پارلیمان سے منظوری کے باوجود ملک کے صدر نے معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ چیک جمہوریہ کے صدر بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ معاہدے پر دستخط میں جتنی تاخیر ہوسکے وہ کریں گے۔
اس کے بعد نومبر میں آئرلینڈ میں لزبن معاہدے پر ایک عوامی ریفرینڈم نومبر کے مہینے میں ہوگا۔ گزشتہ برس آئرلینڈ کے عوام نے اس معاہدے کو مسترد کردیا تھا۔
یہ صورتِ حال جیک جمہوریہ کے لیے پریشان کن اور باعثِ ندامت اس لیے بھی ہے کہ وہ چھ ماہ کے لیے یورپی یونین کا صدر ملک ہے اور وہ ہی یونین میں اصلاحات کے معاہدے کو منظور کرنے میں ناکام ہے۔