جلال الدین حقانی کے انتقال کی خبریں، خاندان کی تردید
31 جولائی 2015جلال الدین حقانی کو افغانستان میں خونریز ترین حملوں کے لیے قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔ اُن کی عمر ستر سے اوپر ہے اور حالیہ چند برسوں سے یہ سننے میں آ رہا ہے کہ اُن کی صحت بہت خراب ہو چکی ہے۔ بتایا جاتا رہا ہے کہ اسی وجہ سے اُنہوں نے اپنی طالبان کی حامی تنظیم کی قیادت بھی اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق پاکستانی میڈیا پر جلال الدین حقانی کے انتقال کی خبریں جاری ہونے کے بعد حقانی خاندان کے دو ارکان نے اس امر پر اصرار کیا ہے کہ جلال الدین کا انتقال نہیں ہوا ہے۔
ایک قریبی عزیز نے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے بتایا:’’مولوی جلال الدین حقانی بلاشبہ اب بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا ہیں لیکن خدا کے فضل سے وہ خیریت کے ساتھ ہیں اور زندہ ہیں۔‘‘
تاہم روئٹرز ہی کے مطابق حقانی خاندان کے ایک تیسرے رکن نے جلال الدین حقانی کے انتقال کی خبروں کو درست قرار دیا۔ اس شخص کا روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حقانی کا ڈیڑھ سال پہلے دماغ کی شریان پھٹنے سے انتقال ہو چکا ہے۔
جلال الدین حقانی کے انتقال کی خبریں ایک ایسے موقع پر سامنے آ رہی ہیں، جب افغان حکومت کے بعد طالبان نے بھی اپنے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی تصدیق کر دی ہے اور طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنا نیا امیر مقرر کر لیا ہے۔
جلال الدین کی سرگرمیوں کی تشہیر سن 1980ء میں ہونا شروع ہوئی، جب وہ اور ان کے ساتھی امریکا کی مرکزی انٹیلی جینس ایجنسی CIA اور سعودی عرب کی مدد سے افغانستان میں روسی قبضے کے خلاف لڑ رہے تھے۔
حقانی در اصل پشتون ہیں اور ان کا تعلق افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیا کے زادران قبیلے سے ہے۔ حقانی نیٹ ورک کا اثر پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بھی ہے۔ ایسے الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کے عسکریت پسندوں نے ہی خودکش حملوں کو متعارف کروایا۔ ماضی میں افغانستان میں قائم بھارتی سفارت خانے کے علاوہ افغان صدر پر متعدد حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی اس نیٹ ورک کا نام لیا جاتا رہا ہے۔