1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جعلی ڈگری کا مطلب یہ نہیں کر پائلٹس ماہر نہیں، پی آئی اے

عبدالستار، اسلام آباد
10 مئی 2018

پاکستان کے سول ایویشن اتھارٹی کے ایک اہم عہدیدار نے سپریم کورٹ میں انکشاف کیا کہ پی آئی اے کے چوبیس پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ اس انکشاف کے بعد پی آئی اے کی سیفٹی اور سکیورٹی کے اصولوں پر زبردست بحث شروع ہوگئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2xVFg
Pakistan International Airline PIA
تصویر: Reuters/F. Mahmood

سی سی اے کے نمائندے ساجد الیاس بھٹی نے عدالتِ عالیہ کو بتایا کہ عملے کے دیگر 67 ارکان بھی جعلی ڈگریوں کے حامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے کے چار سو اکیاون پائلٹس میں سے تین سو انیس کی تعلیمی اسناد کی تصدیق ہو گئی ہے جب کہ ایک سو چوبیس کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔ سات جعلی ڈگری کے حامل پائلٹس نے عدالت سے حکم امتناعی لیا ہوا ہے اور وہ کام کر رہے ہیں۔

پی آئی اے کے ترجمان مشہور تاجور کا یہ کہنا ہے کہ ان جعلی ڈگری کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ماہر پائلٹس نہیں تھے۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ جعلی ڈگریوں کا معاملہ کافی پرانا ہے۔ چوبیس میں سے سترہ پائلٹس کو نکالا جا چکا ہے اور سات نے عدالتوں سے حکمِ امتناعی لیا ہوا ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے میڑک کے سر ٹیفیکیٹ میں یا تو تاریخِ پیدائش میں ردو بدل کیا ہے یا کسی اور اسناد میں نمبر یا نام میں ہیر پھیر کی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جعلی پائلٹ تھے۔ انہوں نے کمرشل پائلٹ کے لا ئسنس لیے ہوئے تھے، جو پائلٹس کو تربیت مکمل کرنے کے بعد دیے جاتے ہیں۔ جن پائلٹس کو ہم نے جعلی ڈگری پر نکالا، ان میں سے کچھ غیر ملکی ایئر لائنز میں کام کر رہے ہیں۔‘‘
سول ایوی ایشن کے ایک افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان جعلی ڈگریوں کو حاصل کرنے کے مقاصد کچھ اور ہیں،’’زیادہ تر پائلٹس انتظامی نوکریاں بھی کرتے ہیں اور جہاز بھی اڑاتے ہیں۔ اس حوالے سے پی آئی اے نے قوانین میں نرمی کی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر پی آئی اے کے بورڈز آف ڈائریکڑز ہی دیکھ لیں، اس میں کئی پائلٹس بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد میٹرک یا انٹر میڈیٹ کر نے کے بعد جہاز کی ٹریننگ لیتے ہیں اور پائلٹ بن جاتے ہیں۔ پی آئی اے میں شمولیت اختیار کر کے انہیں انتظامی نوکری کرنے کا بھی شوق ہوجاتا ہے کیونکہ اس طرح ان کی آمدنی بہت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اس طرح کے کام کے لیے گریجویشن یا ماسٹرز کی ڈگریا ں چاہیے ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ پائلٹس پھر جعلی ڈگریاں بنواتے ہیں اور کوالٹی ایشورینس، ایئر ٹریفک مینیجمنٹ، فلائیٹ سیفٹی اور ایئرپورٹ سروسز سمیت کئی اداروں میں انتظامی عہدوں پر کام کرتے ہیں۔ آپ ان اداروں کے کئی سربراہوں کو دیکھ لیں، وہ بوئنگ 777 یا دوسرے طیاروں کے پائلٹ رہے ہیں۔ تو انتظامی عہدوں کے لیے جعلی ڈگری لی جاتی ہیں۔‘‘

Pakistan Fluggesellschaft PIA Premier
تصویر: PIA

پی آئی اے کے جہاز میں بلی، پرواز روک دی گئی

’انتخابات سے قبل پی آئی اے کو بیچنے کا ارادہ ہے‘

ہیتھرو: پی آئی اے کے جہاز کی تلاشی، عملہ حراست میں

لیکن کئی مبصرین کے خیال میں ایک عام مسافر معاملات کی گہرائی میں نہیں جاتا اور اس کے خیال میں کسی بھی خبر کا تاثر ہی اس کے لیے اہم ہوجاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ عام آدمی کو اس خبر سے یہ پیغام گیا ہے کہ پی آئی اے میں پائلٹ ماہر نہیں ہیں اور سوشل میڈیا نے بھی اسی تاثر کو ابھارا ہے۔ پی آئی اے کی یونین پیپلز یونٹی کے جنرل سیکریڑی سہیل مختار کے خیال میں اس خبرکا منفی تاثر جائے گا، ’’لوگ یہ سمجھیں گے کہ پی آئی اے کے پائلٹس ماہر نہیں ہیں۔ بین الاقوامی مسافر اس حوالے سے زیادہ پریشان ہوں گے کیونکہ ان کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔ لیکن لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایک وقت میں پائلٹس صرف میڑک یا انٹر پاس ہوتے تھے اور وہ کمرشل پائلٹس کی تربیت لیتے تھے اور پائلٹس بن جاتے تھے۔‘‘
تاہم سہیل مختار کے خیال میں پائلٹس نے جعلی ڈگریوں کو استعمال کر کے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، ’’  ان کے اس اقدام سے لوگوں میں غیر ضروری خوف پیدا ہوگا اور ہمارا کاروبار بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ لوگ کہیں گے کہ انہوں نے جعلی ڈگری رکھی اور انسانوں کی جان سے کھیلنے کی کوشش کی۔ پی آئی اے میں اسٹاف کی سخت چانچ پڑتال ہوتی ہے۔ اب پائلٹس کے لیے بھی سخت ضابطے بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘