1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جعلی ڈگری اسکینڈل: ’بول کا پول کھل گیا‘

عاطف توقیر18 مئی 2015

پاکستان میں سب سے بڑے میڈیا گروپ ’بول‘ کو قائم کرنے کا خواب دیکھنے والے کمپنی ایکس ایکٹ دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کرنے کی خبر کے بعد شدید تنقید کی زد میں ہے۔

https://p.dw.com/p/1FRYz
New York Times Kiosk 13.07.2011
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی کمپنی ایکس ایکٹ دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کر کے لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔

کراچی شہر میں قائم اس کمپنی کے ملازمین کی تعداد دو ہزار ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس کمپنی نے جعلی تعلیم کی ایک ’سلطنت‘ قائم کر رکھی ہے، جس کے ذریعے پیشہ ور اداکاروں کو استعمال کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ حتیٰ کے جان کیری تک کے جعلی دستخطوں والی ڈگریاں جاری کر رہی ہے۔

اخباری رپورٹ کے مطابق یہ کمپنی جعلی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی 370 سے زائد ویب سائٹس چلا رہی ہے، جس کے ذریعے ڈگریاں دے کر پیسے بنائے جا رہے ہیں۔ امریکی اخبار نے یہ مضمون اس کمپنی کے ایک سابقہ ملازم کی دی گئی تفصیلات کے مطابق تحریر کیا ہے۔ یہ مضمون شائع ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر اس پاکستانی کمپنی کے خلاف شدید تنقید دیکھنے میں آئی۔ ایکس ایکٹ نے ایسی کسی جعل سازی سے انکار اور ان الزامات کو رد کیا ہے۔

اپنی ویب سائٹ پر اس پاکستانی کمپنی کا کہنا ہے، ’بے بیناد، گھٹیا، الزام تراشی پر مبنی، شہرت کو نقصان پہنچانے والے اور جھوٹے الزامات‘ عائد کیے جا رہے ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس مضمون پر نیویارک ٹائمز کے خلاف مقدمہ قائم کرے گی۔

واضح رہے کہ ایکس ایکٹ کمپنی ہی نے پاکستان میں ’بول‘ کے نام سے ایک نیوز چینل شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں ملک کے اہم میزبانوں اور صحافیوں کو ملکی میڈیا مارکیٹ کے مقابلے میں انتہائی زیادہ تنخواہوں پر ملازمتیں بھی دی گئی ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ایکس ایکٹ نے جعلی ویب سائٹس بنائیں، جس میں پیشہ ور اداکاروں کو ’پروفیسرز‘ اور ’طالب علم‘ ظاہر کیا گیا۔

جامعات کی ویب سائٹس کی آن لائن ٹریفک عموماﹰ ایکس ایٹ کمپنی ہی کے قبرص اور لیٹویا میں رجسٹرڈ سرورز سے گزرتی رہی ہے جب کہ ملازمین کو ایکس ایکٹ یونیورسٹیوں کے حوالے سے شہری صحافت (سٹیزن جرنلزم) کی ویب سائٹ پر مضامین بھی لکھوائے جاتے رہے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق اس کمپنی سے جعلی ڈگریاں حاصل کرنے والے ہزاروں افراد کا تعلق امریکا، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے ہے، جن سے لاکھوں ڈالر وصول کیے گئے۔ ان طلبہ میں سے کئی یہ سمجھتے رہے کہ جامعات اصلی ہیں اور وہ ان سے اپنا کورس ورک وصول کریں گے۔

اس حوالے سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایکس ایکٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو افسر شعیب احمد شیخ سے رابطے کی کوشش کی، تاہم انہوں نے کسی سوال کا جواب دینے سے احتراظ کیا۔ تاہم بعد میں ایکس ایٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ردعمل میں کہا گیا ہے کہ یہ الزامات مقامی حریف میڈیا گروپ نیویارک ٹائمز کے ساتھ مل کر گھڑ رہے ہیں، تاکہ کمپنی کے کاروبار کو نقصان پہنچے۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے کہا کہ نیویارک ٹائمز کے اس مضمون میں لگائے گئے الزامات پاکستانی قانون کے تحت جرم کے زمرے میں آتے ہیں، جس کی سزا سات برس تک کی ہے۔

اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کو اس معاملے کا علم تھا، تاہم کوئی شکایت سامنے نہ آنے کی وجہ سے اس کمپنی کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغاز نہیں کیا گیا۔