1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسم فروشی حقیقت ہے لیکن پھر فلم پر پابندی کیوں؟

عدنان اسحاق4 جون 2015

مراکش کے فلم ساز نبیل عیوشی کی فلم ’مَچ لوڈ‘ کَن فلمی میلے میں دکھائی گئی۔ جسم فروشی کے موضوع پر بنائی جانے والی اِس فلم پر مراکش میں پابندی عائد ہے۔ بعض لوگوں کی طرف سے عیوش کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fbep
تصویر: imago/Jochen Tack

فلم ساز نبیل عیوش کی کاوش ’ Much loved ‘ کی وجہ سے مراکش میں ایک شدید بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ اِس فلم کی کہانی مراکش کے دارالحکومت میں رہنے والی جسم فروش خواتین کے ایک گروپ کے گرد گھومتی ہے۔ ’مَچ لوڈ‘ کو مراکش میں اِس موسم خزاں میں نمائش کے لیے پیش کیا جانا تھا لیکن اس فلم کے جنسی مناظر، بھڑکتے ہوئے رقص اور ڈائیلاگ پہلے ہی انٹرنیٹ پر تنازعے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔

سماجی ویب سائٹس پر نبیل عیوش کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے اور اُن کی مخالفت میں فیس بک پر ایک صفحہ بھی بنا دیا گیا ہے۔ اِس صفحے کے ذریعے مراکشی نژاد فرانسیسی ڈائریکٹر عیوش اور فلم کی مرکزی کردار لبنٰی آبیدار کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

مظاہروں کے ذریعے مراکش کی اسلام پسند حکومت پر دباؤ ڈلا جا رہا ہے کہ وہ اِس فلم پر مکمل طور پر پابندی عائد کرے کیونکہ اِس میں مراکشی خواتین کی اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ حزِب اختلاف کی جماعت استقلال پارٹی کے رہنما حامد شباط کے مطابق، ’’نبیل عیوش کی بھی والدہ، دادی، نانی، بہن اور اہلیہ ہوں گی۔ اُنہیں خدا کے پاس جانا ہے اور اُنہیں اِس طرح کا کام بند کر دینا چاہیے‘‘۔

Nabil Ayouch Regisseur Frankreich Marrokko
مراکشی نژاد فرانسیسی ڈائریکٹر عیوش اور فلم کی مرکزی کردار لبنٰی آبیدار کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب جدیدیت کی حامی جماعت حزب الاصلۃ و المعاصرۃ سے تعلق رکھنے والی نائب اسپیکر پارلیمان خدیجہ الرویسی کا کہنا ہے کہ فلم کو اُس کی فنکارانہ صلاحیتوں کی بناء پر پرکھنا چاہیے: ’’فنکارانہ کام کا فیصلہ تخلیقی معیارات کو دیکھتے ہوئے کرنا چاہیے ناکہ اُسے اخلاقی اقدار کے آئینے سے دیکھنا چاہیے۔‘‘

ملکی ذرائع ابلاغ ’مَچ لوڈ‘ کے حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ چند اخبارات اِس کے حق میں بات کررہے ہیں جبکہ کچھ لکھتے ہیں کہ ’’ بے شک مراکش میں جسم فروشی کا کاروبار کیا جاتا ہے لیکن اِس طرح کے نازک موضوع کو اِس قدر اشتعال انگیز طریقے سے فلمانے کی کوئی وجہ موجود نہیں تھی‘‘۔

جسم فروشی کا کاروبارو کرنے والی ایک خاتون نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ایک مقامی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ فلم میں دکھائی جانے والی یہ محفلیں، رقص و موسیقی اور یہ بے ہودگی سب کچھ حقیقت ہے‘‘۔ اُس کے بقول اُسے سمجھ نہیں آتا کہ معاشرہ اِس فلم کو تسلیم کیوں نہیں کر رہا؟