1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرگے اور پنچایت کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ

وقار مصطفیٰ ، لاہور
6 فروری 2017

پاکستان میں قومی اسمبلی نے ایک ایسےمسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت  ملک  میں غیر رسمی عدالتی نظام جرگے اور پنچایت کو آئینی اور قانونی تحفظ مل جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2X40a
Pakistan Parlament in Islamabad
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

پاکستانی حکومت کے مطابق اس اقدام  سے عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم ہوگا اور انتہائی سول نوعیت کے معاملات جلد حل ہوسکیں گے۔ سماجی تنظیموں کو خدشہ ہے کہ ان  غیر رسمی عدالتوں کے فیصلے خواتین اور غریب افرادکے خلاف جا سکتے ہیں۔

پاکستان کے آئین میں 2010ء میں کی گئی اٹھارویں ترمیم کے بعدسےسول قوانین میں ترامیم کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے۔کل 342 ارکان  میں سے17 حکومتی اور چھ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمان کی موجودگی میں ’’متبادل تنازعہ جاتی تصفیہ بل 2016 ‘‘ نامی یہ مسودہ قانون پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ اسلام آباد میں اس قانون پر فوری طور پر عمل درآمد کا آغاز ہو جائے گا جب کہ وقت کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں میں وہاں کی حکومتوں کی مشاورت سے اسے نافذ کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے یا تو وفاقی حکومت کی جانب سے درخواست کی جائے گی یا صوبے وفاق سے نئے قانون کے نفاذ کے لیے درخواست کریں گے۔

وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا، ’’یہ نظام گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں موجود ہے اور ہم اسے قانونی تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔  عدالتوں میں نسل در نسل مقدمات چلتے ہیں۔‘‘

لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے سال 2016ء کے اواخر کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان بھر میں 20 لاکھ کے قریب مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔

Mukhtaran Mai
ویمن ایکشن فورم کے مطابق ماضی میں جرگوں اور پنچایتوں کے فیصلے پرعورتوں کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا یاکم سن بچیوں کو اپنے مرد رشتہ داروں کے جرائم کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ مختاراں مائی کو بھی ایسی ہی ایک پنچایت کے حکم پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔تصویر: picture alliance/dpa

قانون کے تحت یہ عدالتیں ان 23 قسم کے  تنازعات کا فیصلہ کریں گی:

مکان مالک اور کرائے دار کے درمیان تنازعہ، قبضے کے تنازعات، زمین اور جائیداد کے تنازعات، چھوٹے موٹے دعووں اور معمولی جرم عدالتی آرڈیننس، 2002 کے تحت آنے والے سول تنازعات، کمرشل تنازعات تاہم ان میں کسی بھی قسم کا دعویٰ شامل نہ ہو، تجارت اور کامرس سے متعلق حقوق یا دلچسپی کے معاملات، معاہدے کے مقدمات، پیشہ ورانہ غفلت کے تنازعات، خاندانی تنازعات، جن میں شادی اور اس کی تحلیل کے معاملات شامل ہیں، خاص مقاصد کے لیے مقدمات، کمپنیوں اور بینک کے معاملات، انشورنس،  سمجھوتے کےقابل معاملات، ذاتی چوٹ، معاوضہ اور نقصانات کے مقدمات، ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ کے مسائل، نہر اور نکاسی آب کے قانون کے تحت تنازعات، قابل منتقلی اثاثوں کی ریکوری کے معاملات، مشترکہ غیر منقولہ جائیداد کی  تقسیم کے تنازعات،  اورمشترکہ جائیداد کے اکاؤنٹس کے تنازعات ۔

وزیر قانون کے مطابق، ’’اس نظام کے تحت حکومت، ہائی کورٹ کی مشاورت سے ہر ضلع میں غیر جانبدار افرادکا ایک پینل نامزد کرے گی۔‘‘

تاہم اپوزیشن نے پنچایت و جرگے کی واضح تشریح کرنے اور غیر جانبدار پینل کی نامزدگیوں کا اختیار عدلیہ تک محدود رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود کا كہنا ہے كہ اس طرح كا بل لانا لائق تحسین اقدام ہے: ’’گاؤں  كے لوگ یہ دعا كرتے ہیں كہ كچہری، تھانے اور اسپتال نہ جانا پڑے۔ پنچایت اور جرگے كا نظام صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ اب بھی ہمارے دیہات اور شہروں میں جرگوں كے ذریعے فیصلے ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم شفقت محمود نے خدشہ ظاہر کیا کہ جرگے اور پنچایت میں نامزدگیوں کا اختیار حکومت کے پاس ہونے سے سارا سسٹم سیاست کی نذر ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نامزدگیوں کا اختیار صرف اور صرف عدلیہ کے پاس ہونا چاہیے۔

Pakistan Ex-Präsident Musharraf Gerichtsprozess Gericht Flucht 18.04.2013
لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے سال 2016ء کے اواخر کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان بھر میں 20 لاکھ کے قریب مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیںتصویر: AFP/Getty Images

پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمان نفیسہ شاہ نے مذکورہ قانون کے تناظر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور خواتین کو غیر جانبدار پینل کا حصہ بنانےکا مطالبہ کیا۔ انہوں نے كہا، ’’پنچایتوں اور جرگوں میں خواتین كی نمائندگی ہونی چاہیے كیونكہ سب سے زیادہ استحصال خواتین كا ہوتا ہے۔ بل میں پنچایت اور جرگے كی تعریف واضح نہیں ہے اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ وہ كون سے غیر جانبدار لوگ ہوں گے جو فیصلے كریں گے۔‘‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اتحاد ویمن ایکشن فورم کے مطابق  ماضی میں جرگوں اور پنچایتوں میں خواتین اور غریب لوگوں کو غیر انسانی سزائیں دی گئیں۔ نسرین اظہر، نگین حیات اورجاسمین زیدی کا مشترکہ طور پر کہنا تھا کہ ان جرگوں اور پنچایتوں کے فیصلے پرعورتوں کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا یاکم سن بچیوں کو اپنے مرد رشتہ داروں کے جرائم کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا، ’’ملک کے عدالتی نظام کی خامیاں دور کرنے کی بجائے ایسے نظام کو باقاعدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے سندھ ہائی کورٹ دو ہزار پانچ میں غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ ہمیں علم ہے کہ متبادل نظام کئی ممالک میں کامیاب رہا ہے مگر پدر سری نظام اور سماجی طور پر غیر منصفانہ اور غیر مساوی حالات میں یہ ناقابل قبول ہے۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ اس طرح  کا اہم بل 342 کے ایوان میں صرف 23 ارکان کی طرف سے منظور کیا گیا ہے۔"

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے تاہم اس اُمید کا اظہار کیا کہ اس نظام کے تحت خواتین کے حقوق کو تحفظ ملے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’تنازعے کا حل فریقین کی رضا مندی سے کیا جائے گا اور اگر کوئی عورت یہ سمجھے گی کہ اسے انصاف فراہم نہیں کیا گیا تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔‘‘