1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمنی کو اسلامی انتہا پسندی سے خطرہ‘

عاصم سلیم29 اکتوبر 2014

يورپی ملک جرمنی کے وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے خبردار کيا ہے کہ ان کے ملک کو اسلامی انتہا پسندی سے شديد خطرات لاحق ہيں اور جرمنی ميں اس وقت حملے کرنے کی صلاحيت کے حامل مشتبہ افراد کی تعداد اپنی اونچی ترين سطح پر ہے۔

https://p.dw.com/p/1DdXF
تصویر: Reuters

تھوماس ڈے ميزيئر کے بقول خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے واپس جرمنی کا رخ کرنے والے جہاديوں سے لاحق خطرات کے علاوہ مخالف انتہا پسند گروپوں کے مابين ممکنہ تصادم کے نتيجے ميں جرمن سڑکوں پر بھی پر تشدد واقعات کا امکان موجود ہے۔ انہوں نے يہ بات منگل اٹھائيس اکتوبر کے روز دارالحکومت برلن ميں منعقدہ ايک سکيورٹی کانفرنس ميں کہی۔

تھوماس ڈے ميزيئر کا کہنا تھا کہ ملکی سکيورٹی فورسز کا ايسا ماننا ہے کہ سب سے زيادہ خطرہ ايسے انتہا پسند افراد سے لاحق ہے، جو انفرادی طور پر کارروائی کرنے کے اہل ہيں، جيسا کہ گزشتہ ہفتے کينيڈا ميں ہوا جہاں دو فوجيوں کو ايسے افراد نے ہلاک کر ديا، جنہوں نے حال ہی ميں اسلام قبول کيا تھا۔ وزير داخلہ نے مزيد کہا، ’’صورتحال انتہائی نازک ہے۔ ہم آزادی کی نمائندگی کرتے ہيں اور اسی ليے نفرت کا سبب بن رہے ہيں۔‘‘

کولون ميں اتوار کو ہونے والا مظاہرہ، جو پر تشدد رنگ اختيار کر گيا تھا
کولون ميں اتوار کو ہونے والا مظاہرہ، جو پر تشدد رنگ اختيار کر گيا تھاتصویر: Reuters/Wolfgang Rattay

جرمنی کی ملکی انٹيليجنس ايجنسی (BfV) نے متنبہ کيا ہے کہ ’انتہائی زيادہ قدامت پسند سلفی اسلام‘ تيزی سے مقبول ہو رہا ہے، جس سے اسلامک اسٹيٹ کے ممکنہ ارکان کی تعداد ميں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ايجنسی کے اندازوں کے مطابق جرمنی ميں سلفی دھڑے کے مسلمانوں کی تعداد 2011ء ميں 3,800 تھی، جو گزشتہ برس 5,500 تک پہنچ چکی تھی اور امکان ہے کہ سال رواں کے اواخر تک يہ تعداد 7,000 تک پہنچ سکتی ہے۔

جرمنی کے قريب ساڑھے چار سو شہری شام اور عراق ميں جہاديوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے ليے جا چکے ہيں اور ان ميں سے قريب ڈيڑھ سو وطن واپس لوٹے ہيں۔ ڈے ميزيئر کے بقول حکام ايسے 225 مشتبہ افراد کی نگرانی کر رہے ہيں، جن پر شبہ ہے کہ وہ ملکی سرزمين پر حملے کرنے کے اہل ہيں۔ چند برس قبل ايسے مشتبہ افراد کی تعداد اسی تا نوے کے درميان ہی تھی۔

يہ امر اہم ہے کہ گرچہ شام اور عراق ميں امريکی قيادت ميں اسلامک اسٹيٹ کے خلاف جاری فضائی کارروائی ميں جرمنی براہ راست شامل نہيں ہے تاہم برلن حکومت نے کرد افواج کو اسلحہ فراہم کرنے کا کہہ رکھا ہے تاکہ وہ انتہا پسندوں سے اپنا دفاع کر سکيں۔ اسی دوران اسلامک اسٹيٹ کی طرف سے ايسی ويڈيوز جاری کی جا چکی ہيں، جن ميں چند جہادی جرمن زبان ميں يہ دھمکی دے رہے ہيں کہ وہ جرمن سرزمين پر حملے کر سکتے ہيں۔

يہ امر بھی اہم ہے کہ مشرق وسطی کی کشيدگی کے تناظر ميں پچھلے چند مہينوں کے دوران بيشتر جرمن شہروں ميں کردوں اور سلفيوں کے مابين تصادم بھی ہو چکا ہے۔ جرمنی کی ملکی انٹيليجنس ايجنسی (BfV) کے صدر ہانس گے اورگ مازن نے ايک بيان ميں کہا ہے کہ انہيں خدشہ ہے کہ انتہا پسندوں کے مابين يہ پر تشدد جھڑپيں بڑھ بھی سکتی ہيں۔