1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: پناہ گزینوں سے متعلق نئے اور سخت ضوابط

23 مارچ 2018

جرمن حکومت کے منصوبے کے مطابق آئندہ پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ ہونے تک خصوصی حراستی مراکز میں رکھا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2urNm
Deutschland Stempel Abgeschoben Symbolbild
تصویر: Reuters/M. Dalder

چانسلر میرکل کی قیادت میں نئی مخلوط حکومت میں سی ڈی یو، سی ایس یو اور ایس پی ڈی شامل ہیں۔ نئی وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر مہاجرین اور تارکین وطن کے حوالے سے اپنے سخت رویے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔

ترک یورپی ڈیل کے دو برس مکمل، کیا کھویا کیا پایا؟

مخلوط حکومت کے قیام کے لیے ان جماعتوں کے مابین جو معاہدہ طے پایا تھا اس کے مطابق جرمنی میں نئے آنے والے تارکین وطن کو آئندہ ان کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے ہونے تک خصوصی حراستی مراکز میں رکھا جائے گا۔ زیہوفر اس منصوبے پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں اور ممکنہ طور پر ایسے حراستی مراکز کا قیام رواں برس ستمبر کے مہینے تک عمل میں لے آیا جائے گا۔

ان نئے اقدامات کا بظاہر مقصد ملکی پناہ کے نظام کو مزید فعال بنانا ہے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے صدمہ زدہ انسانوں کے لیے خطرے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

نئے اقدامات کیا ہیں؟

جرمن حکومت کے منصوبے کے مطابق آئندہ پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تمام غیر ملکیوں کو خصوصی حراستی مراکز میں رکھا جائے گا۔ جب تک جرمن حکام ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے نہیں، انہیں ان حراستی مراکز سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اتحادی جماعتوں کے مابین طے ہونے والے معاہدے کی دستاویز میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ ان حراستی مراکز میں تارکین وطن کے قیام کی زیادہ سے زیادہ مدت اٹھارہ ماہ ہو گی، اور اسی عرصے کے اندر اندر ان کی پناہ کی درخواستیں نمٹائی جائیں گی۔ بمع خاندان پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک ان حراستی مراکز میں قیام کرنا ہو گا۔

غلطی سے ملک بدر کیے گئے افغان شہری کو پھر ملک بدری کا سامنا

حراستی مراکز سے باہر جانے کی اجازت بھی صرف ایسے پناہ گزینوں کو دی جائے گی جنہیں جرمنی میں پناہ ملنے کے واضح امکانات ہوں گے۔ جب کہ دیگر تارکین وطن کو جرمنی سے ملک بدر کر دیے جانے تک انہیں مراکز میں زیر حراست رکھا جائے گا۔ اس دستاویز میں تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ایسے خصوصی حراستی مراکز کس جگہ بنائے جائیں گے۔

نقل و حرکت کی آزادی ختم؟

موجودہ ضوابط کے مطابق جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ کی درخواستیں جمع کرانے کے بعد تین ماہ تک پناہ گزینوں کے خصوصی مراکز میں رہنا ہوتا ہے۔ پناہ گزین رہائش کے لیے اپنی مرضی سے کسی شہر کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ انہیں جرمنی بھر میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے مختلف صوبوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے باجود ان کی نقل حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ پناہ کی درخواست مسترد ہونے کی صورت میں نہ تو انہیں کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی وہ جرمنی سے واپس وطن یا کسی دوسرے ملک بھیج دیے جانے تک وہ اپنے تئیں کہیں سفر کر سکتے ہیں۔

متنازعہ اقدامات پر ردِ عمل

جنوری کے مہینے میں سی ایس یو کے قائم مقام سربراہ مانفریڈ ویبر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سن 2018 میں یورپ کے لیے مرکزی موضوع مہاجرین کے بحران کا ’حتمی حل‘ ہے۔ اس اصطلاح نے نازی دور کے جرمنی کی تلخ یادیں دوبارہ تازہ کر دی تھیں جب سن 1942 میں ’یہودیوں کے سوال کا حتمی حل‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد نازی اذیتی کیمپوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

اس تناظر میں بھی مہاجرین کے لیے خصوصی حراستی مراکز کے قیام کے حالیہ فیصلے پر بھی جرمنی میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور دیگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ایسے حراستی مراکز نہ صرف مہاجرین کے حقوق کے منافی ہیں بلکہ یہ جرمنی میں پناہ کے حق دار سمجھے جانے والے افراد کے معاشرتی انضمام میں بھی بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گے۔

ش ح/ع ب (انفومائیگرینٹس)

فرانس: پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے خلاف زیادہ سخت قوانین