1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی نے صدر اسد کے بہت قریبی معتمد کے وارنٹ جاری کر دیے

9 جون 2018

جرمنی میں وفاقی دفتر استغاثہ نے شامی صدر اسد کے بہت قریبی معتمد جمیل حسن کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ شامی ایئر فورس انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کے یہ سربراہ انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں مطلوب ہیں۔

https://p.dw.com/p/2zChK
شامی صدر بشارالاسدتصویر: picture-alliance/dpa/Zumapress

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ہفتہ نو جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں ریاستی دفتر استغاثہ کی طرف سے جنگ زدہ ملک شام کے صدر بشارالاسد کے جمیل حسن نامی اس انتہائی قریبی معتمد کے انٹرنیشنل وارنٹ گرفتاری اس لیے جاری کیے گئے ہیں کہ ان پر سینکڑوں قیدیوں پر تشدد اور ان کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔

جرمن ہفتہ روزہ جریدے ’ڈئر اشپیگل‘ کے مطابق جمیل حسن نہ صرف صدر اسد کے انتہائی قریبی معتمدین میں سے ایک ہیں بلکہ وہ شامی فضائیہ کے اس انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ بھی ہیں، جو اپنے ہتھکنڈوں اور ایذا رسانی کی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہے۔

’ڈئر اشپیگل‘ نے اپنے آن لائن ایڈیشن میں لکھا ہے کہ جمیل حسن کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانا کسی بھی مغربی ملک کی طرف سے آج تک کی جانے والی وہ سب سے بڑی اور سنجیدہ ترین کوشش ہے، جس کا مقصد اسد حکومت اور اس کے ارکان کو انسانیت کے خلاف ان جرائم کے لیے جواب دہ بنانا ہے، جن کا 2011ء میں شروع ہونے والی خونریز خانہ جنگی کے دوران دمشق حکومت نے اب تک ارتکاب کیا ہے۔

Deutschland Asylbewerber in Berlin Symbolbild
خانہ جنگی کے باعث اپنے ملک سے رخصت ہونے والے لاکھوں شامی مہاجرین اب تک جرمنی میں پناہ گزین ہو چکے ہیںتصویر: Getty Images/S. Gallup

انسانی حقوق کی عالمگیر تحریک نامی ادارے FIDH کے رابطہ کار اور معروف ماہر قانون کلیمنس بیکٹارٹ کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا موقع ہے کہ کسی ملک کی غیر جانبدار عدلیہ نے دمشق حکومت اور اس کے اعلیٰ اہلکاروں کی طرف سے وسیع پیمانے پر کیے جانے والے جرائم کے سلسلے میں کسی فرد کو واضح طور پر ذمے دار قرار دیتے ہوئے اس کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔

اس سلسلے میں اے ایف پی نے جب برلن میں جرمنی کے وفاقی دفتر استغاثہ سے رابطہ کیا، تو اس ادارے نے اس پیش رفت پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

’ڈئر اشپیگل‘ کے مطابق جمیل حسن کی عمر اس وقت 64 برس ہے اور جرمن پراسیکیوٹرز کی طرف سے شامی ایئر فورس انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ کے اس سربراہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے 2011ء اور 2013ء کے درمیانی عرصے میں شامی حکومت کے حراستی مراکز میں اپنے ماتحت اہلکاروں کو سینکڑوں قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے، ریپ کرنے اور انہیں ہلاک کر دینے کے احکامات دیے تھے۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ جمیل حسن کے خلاف ان الزامات کا تعلق جزوی طور پر ان شواہد سے بھی ہے، جو ایک ایسے شامی فوٹوگرافر نے مہیا کیے تھے، جو شامی ملٹری پولیس کے لیے کام کرتا تھا اور جو ہزارہا شواہد کے ساتھ 2013ء میں شام سے فرار ہو کر بیرون ملک چلا گیا تھا۔

اس فوٹوگرافر کو عرف عام میں ’سیزر‘ کہاجاتا تھا اور وہ اپنے ساتھ شام سے قریب 55 ہزار ایسی تصاویر لے کر فرار ہوا تھا، جن میں سینکڑوں قیدیوں کی ان پر شدید تشدد کے بعد لی گئی ہزاروں تصاویر بھی شامل تھیں۔

برلن میں قائم ایک غیر حکومتی تنظیم یورپی مرکز برائے آئینی اور انسانی حقوق ECCHR کے مطابق جمیل حسن کے یہ وارنٹ گرفتاری اس ادارے کی طرف سے دائر کی گئی ایک قانونی درخواست کے بعد جاری کیے گئے ہیں۔ اس درخواست میں اس ادارے نے گزشتہ برس اسد حکومت کے 10 اعلیٰ اہلکاروں کو انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عدالتی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

م م / ع ح / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید