1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: نئے تارکین وطن زیادہ تعلیم یافتہ

27 مئی 2013

جرمنی میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ تارکین وطن کا تعلیمی معیار عام جرمنوں کے مقابلے میں خراب تر ہوتا ہے تاہم ایک نئے مطالعاتی جائزے میں اس تاثر کو غلط ثابت کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ نئے تارکین وطن زیادہ قابل ہیں۔

https://p.dw.com/p/18egg
تصویر: Darren Baker/Fotolia

بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مرتب کردہ اس جائزے کے مطابق پندرہ تا پینسٹھ سال کی عمر کے نئے تارکین وطن کی43 فیصد تعداد کے پاس یا تو یونیورسٹی کی کوئی ڈگری ہے یا پھر اُنہوں نے ٹیکنیشن کے طور پر کوئی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ سن 2000ء کے مقابلے میں یہ دگنی شرح ہے۔ کوئی غیر ملکی جڑیں نہ رکھنے والے جرمن شہریوں کے ہاں یہ شرح محض 26 فیصد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم کوالیفکیشن کے حامل جرمنوں کی تعداد بھی چالیس سے تقریباً نصف کم ہو کر پچیس فیصد تک آ گئی ہے۔

شُوعو چَین کا آبائی گاؤں شنگھائی سے اتنا دور ہے کہ وہاں کار کے ذریعے پہنچنے میں بھی بارہ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اُس کے گھر والوں نے اُسے بہتر تعلیم و تربیت دلانے کے لیے گھر سے دور شنگھائی میں اپنے رشتے داوں کے پاس بھیج دیا تھا۔ 19 سال کی عمر میں شُوعو نے ایک اور چھلانگ لگائی اور جرمنی پہنچ گیا، جہاں اُس نے اقتصادی علوم کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آج کل اُس کی عمر پینتیس برس ہے اور وہ مشین سازی کے ایک بڑے جرمن ادارے میں ایک سرکردہ عہدے پر کام کر رہا ہے۔

بیجنگ میں چینی نوجوان جرمن چینی کمپنی Ameco میں تربیت حاصل کر رہے ہیں
بیجنگ میں چینی نوجوان جرمن چینی کمپنی Ameco میں تربیت حاصل کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ماہرین کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے۔ جرمن اداروں کو چینی ماہرین فراہم کرنے والے ادارے Personalglobal کے ٹوبیاز بُش کے مطابق چینی طلبہ خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس ایڈمنسٹریشن اور انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جرمنی کا رُخ کر رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا:’’یہ چین سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک مثبت انتخاب ہے اور یہ وہ لوگ ہیں، جو بھرپور قوت، توانائی اور استعداد کے حامل ہیں۔‘‘

ٹوبیاز بُش کے مطابق جہاں چین کے خوشحال طبقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ انگلینڈ یا امریکا کی مہنگی یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں، وہاں مالی طور پر کمزور طبقوں کے لائق بچے جرمنی کا رُخ کرتے ہیں کیونکہ یہاں تعلیم سستی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ آج کل جرمنی میں تقریباً بیس تا تیس ہزار چینی ایسے ہیں، جو یا تو کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا پھر تعلیم سے فارغ ہو چکے ہیں۔

چَین کی طرح کے چینی باشندوں کے ساتھ ساتھ خاص طور پر وسطی اور مشرقی یورپ سے یورپی یونین کے نئے رکن ملکوں کے شہری بھی جرمنی میں قدم جمانے کی کوشش میں ہیں۔ روزگار کی منڈی پر تحقیق کے ماہر ہیربرٹ بروکر بتاتے ہیں:’’ان افراد کے ترک وطن کا بہت زیادہ تعلق یورو کے بحران سے ہے۔ پہلے یہ لوگ اسپین، اٹلی، برطانیہ یا پھر آئرلینڈ کا رُخ کرتے تھے تاہم بڑے پیمانے پر بیروزگاری کی وجہ سے اب یہ ملک اُن کے لیے زیادہ پُر کشش نہیں رہے۔‘‘

وفاقی جرمن محکمہء شماریات کے مطابق گزشتہ سال مجموعی طور پر تین لاکھ اُنہتر ہزار افراد نقل مکانی کر کے جرمنی آئے، جو کہ 1995ء کے بعد سے سب سے بڑی تعداد ہے۔

جرمنی کی ایک ورکشاپ میں استاد اپنے ایک شاگرد کو تربیت دیتے ہوئے
جرمنی کی ایک ورکشاپ میں استاد اپنے ایک شاگرد کو تربیت دیتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

تاہم بیرٹلزمن فاؤنڈیشن کے سربراہ یورگ ڈریگر کے مطابق جیسے ہی یورو بحران ختم ہو گا، ویسے ہی تارکین وطن کی تعداد بھی کم ہونا شروع ہو جائے گی جبکہ جرمنی کو بدستور تربیت یافتہ ماہرین کی ضرورت رہے گی:’’ہمارے پاس تربیت یافتہ ماہرین کی کمی ہے، ہماری آبادی سکڑ رہی ہے، اگر بزرگ شہریوں کے لیے مالی وسائل پیدا کرنے کی غرض سے نوجوانوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جائے گی تو پھر ہمارے سماجی انشورنس کے نظام بھی غیر مستحکم ہونے لگیں گے۔‘‘

اس لیے بیرٹلزمن فاؤنڈیشن تارکین وطن سے متعلق ایک نئی حکمت عملی کی وکالت کر رہی ہے۔ اِس فاؤنڈیشن کے مطابق جرمن پرچم کے رنگوں کا حامل ایک سیاہ، سرخ اور سنہری کارڈ اعلیٰ تعلیم و تربیت کے حامل غیرملکیوں کو دیا جانا چاہیے، جس کے تحت ان ماہرین کو غیر معینہ مدت تک کے لیے قیام اور ملازمت کی اجازت دے دی جانی چاہیے۔

روزگار کی منڈی کے ماہر بروکر کے مطابق اس حوالے سے جرمنی کو امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ملکوں کے ساتھ مقابلہ بازی کا سامنا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جرمنی بھی نقل مکانی کے رجحان میں اضافے کے لیے نئے سرے سے قانون سازی کرے اور غیر ملکی اداروں کی اسناد کو تسلیم کرنے کا بھی کوئی بہتر نظام وضع کرے۔

S.Höppner/aa/ia