1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں پناہ گزینوں کے مراکز پر حملوں کا خطرہ

شمشیر حیدر KNA
29 اپریل 2017

جرائم کی تحقیق کے وفاقی جرمن محکمے (بی کے اے) نے خبردار کیا ہے کہ دائیں بازو کے جرمن شدت پسند نوجوان ملک میں تارکین وطن کی رہائش گاہوں پر حملے کر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2c7eV
Schweden Stockholm Brand im Flüchtlingsheim
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Nilsson

جرمن نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن کو مہیا کردہ رہائش گاہوں پر حملے کیے جا سکتے ہیں۔ جرمن ہفت روزہ جریدے ڈیئر اشپیگل نے جرائم کی تحقیق کے وفاقی جرمن محکمے کی ایک داخلی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جرمنی میں دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے نوجوانوں میں انٹرنیٹ کے ذریعے شدت پسندانہ سوچ پیدا ہو رہی ہے۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

اسی تناظر میں بی کے اے نے خبردار کیا ہے کہ دائیں بازو کے ایسے نوجوان شدت پسند انفرادی طور پر تارکین وطن کی رہائش گاہوں پر حملے کرنے کے منصوبے بنا سکتے ہیں۔

ملک کی سکیورٹی صورت حال پر نظر رکھنے والے اس ادارے نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ سکیورٹی حکام کے پاس ’’ایسے حملوں کی تحقیقات کرنے اور ان کو روکنے کے لیے پیشگی اقدامات کرنے کے کوئی مؤثر طریقہ ہائے کار موجود نہیں ہیں۔‘‘

گزشتہ برس مبینہ طور پر مہاجرین کی رہائش گاہوں پر حملوں میں ملوث 418 جرمن نوجوان شدت پسند پولیس کی نظروں میں ہیں۔ لیکن ان میں سے صرف چند لوگ ہی ایسے تھے، جنہیں جرمن پولیس اور دیگر سکیورٹی ادارے پہلے ہی سے دائیں بازو کے سرگرم شدت پسند کے طور پر جانتے تھے اور صرف تین ایسے افراد پولیس کی فہرست میں تھے، جنہیں پہلے ہی ’خطرناک‘ قرار دیا گیا تھا۔

بی کے اے کے مطابق دائیں بازو کے مشتبہ شدت پسند زیادہ تر نوجوان ہیں، جن کی عمریں اٹھارہ سے تیس برس کے درمیان ہیں۔ عام طور پر یہ لوگ مہاجرین کی رہائش گاہوں پر حملے ویک اینڈ پر رات کے اوقات میں کرتے ہیں۔

جرائم کی تحقیق کرنے والے وفاقی جرمن ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران مہاجرین کی رہائش گاہوں پر حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ان نوجوانوں میں اجانب دشمنی، نسل پرستی اور مہاجرین مخالف جذبات میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

ادارے نے خبردار کیا ہے کہ رواں برس ملکی انتخابات سے قبل ان لوگوں کی جانب سے مہاجرین کے خلاف جرائم کرنے میں ممکنہ طور پر اضافہ ہو سکتا ہے۔

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے