1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمنی میں مزید مہاجرین کی آمد ناقابل قبول ہے‘

شمشیر حیدر مانسی گوپالا کرشنا
9 اپریل 2017

ایک تازہ تحقیقی جائزے کے مطابق جرمن عوام کی اکثریت ملک میں مزید مہاجرین کی آمد کے خلاف ہے۔ تاہم جرمنی میں اب بھی مہاجرین کو معاشرے میں قبول کرنے کی شرح یا ’ویلکم کلچر‘ کافی حد تک باقی ہے۔

https://p.dw.com/p/2awja
Deutschland Veranstaltung zur Würdigung Ehrenamtlicher in der Flüchtlingshilfe
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini

بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک منتخب تحقیقی جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 54 فیصد جرمن عوام مزید تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ اسی ادارے کی جانب سے سن 2015 میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے سے پہلے بھی ایک ایسا ہی سروے کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی چالیس فیصد جرمن عوام کی رائے مہاجرین کی جرمنی آمد کے خلاف تھی۔

’جو جتنی جلدی واپس جائے گا، مراعات بھی اتنی زیادہ ملیں گی‘

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر

تحقیقی جائزے میں لکھا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ جرمنی میں مہاجرین کی تعداد بریکنگ پوائنٹ یا اپنی انتہائی حد کو پہنچ چکی ہے۔ اسی لیے مہاجرین اور تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ دیے جانے کے حامی عوام کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔

دوسری جانب اسی جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جرمن عوام کی اکثریت اب بھی اصولی طور پر مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے حق میں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفت گو کرتے ہوئے بیرٹلزمان فاؤنڈیشن سے وابستہ مہاجرین کے امور کی ماہر اُرلش کوبر کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں یہ بہت اہم بات ہے کہ بڑی تعداد میں مہاجرین کی جرمنی آمد کے دو سال بعد بھی عوام میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کی روایت موجود ہے۔‘‘

محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ جرمنی میں سماجی سطح پر مہاجرین کو خوش آمدید کہنے اور انہیں قبول کرنے کا رجحان ابھی تک مثبت ہے لیکن اس حوالے سے لوگوں میں شکوک و شبہات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کا اندازہ تحقیقی جائزے کے نتائج میں بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔

جائزے میں شامل 74 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ کہ وہ تارکین وطن کے بارے میں کھلا ذہن رکھتے ہیں لیکن دوسری جانب 59 فیصد لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب وہ جرمنی میں مزید تارکین وطن کو پناہ دینے کے حق میں نہیں ہیں۔

رواں برس جرمنی میں انتخابات کا سال ہے۔ ان انتخابات میں ملک میں مہاجرین کا موضوع کافی اہمیت رکھتا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سن 2015 میں ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ملکی سرحدیں مہاجرین کے لیے کھول دی تھیں۔ زیادہ تر ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مہاجرین اور تارکین وطن کی جرمنی آمد کے بعد میرکل کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کی عوامی مقبولیت میں بھی بتدریج کمی واقع ہوئی تھی۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘