1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں تارکین وطن نوجوان ،تعلیم کے میدان میں پیچھے

Adnan Ishaq26 اپریل 2009

جرمن نوجوان تعلیم کے میدان میں لڑکیوں کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ نمبروں میں لڑکیوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے ہیں، بلکہ ان میں تعیلم مکمل کرنے کا تناسب بھی لڑکیوں سے کم ہے۔

https://p.dw.com/p/He81
تصویر: DW/AP

جرمنی میں تارکین وطن نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد ایسی ہے جو تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جاتی ہے یا پھر صرف انٹرمیڈیٹ تک ہی پہنحچ پاتی ہے۔ یقینا، مقابلے کی اس دنیا میں انٹرمیڈیٹ تک تعیلم زیادہ فائدہ نہیں پہنچا پاتی۔ جرمنی کے شہر Loccum کی اکیڈمی میں اسی موضوع پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس کا موضوع تھا کہ تارکین وطن گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان تعیلم کے میدان میں کیوں پیچھے رہ جاتےہیں؟ آیا اس کی وجہ جرمنی کا نظام تعلیم ہے یا پھران کا اپنا خاندانی پس منظر؟

Jugend in Europa
جرمنی میں زیر تعلیم نوجوانتصویر: European Community, 2004

جرمنی میں ہائی اسکول کے طلبہ کے لئے چارمختلف نظام موجود ہیں۔ سب سے ذہین طلبہ Gymnasium میں جاتے ہیں ، قدرے ذہین کو Real اسکول میں بھیجا جاتا ہے، اوسط دورجے کے طلبہ عمومی ہائی اسکول جسےschule Haupt کہتےہیں وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ جس میں اسکول میں یہ تینوں نظام جزوی طور پربیک وقت موجود ہوتے ہیں اسے Gesamtschule یا Comprehansiv اسکول کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر طالب علموں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ Gymnasium میں تعیلم حاصل کریں۔

جرمنی میں تارکین وطن طالبعلموں کے بارے میں جرمن اساتذہ کا تعصب اور ان بچوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک ایک اہم متنازعہ مسئلہ ہے جس پرگرما گرم بحث ہوتی رہتی ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوتا ہے جب تارکین وطن بچے خاص طور سے لڑکے سن بلوغت کو پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو ان مسائل کا ذمہدار ٹھرایا جاتا ہے اور اس نتیجہ یہ کہ طاقت کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اس بارے میں اسکولوں کے امورکے ایکسپرٹ اورجرمن ماہر سماجیات Reinar Geißler مشہور زمانہ اسکول طالبعلموں کی ذہانت اور کارکردگی کے مقابلے Pisa Study کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس اسٹڈی کے دوران طالبعلموں سے پوچھا گیا کہ آیا انکےاستاد ان کی ہر طرح کی مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 29 یورپی ممالک کے اسکولوں کے بچوں سے کیے جانے والے اس سوال کے جواب میں محض جرمن اسکولوں کے طالبعلموں کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے اساتذہ کی طرف سے مدد اور پشت پناہی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔

Ländervergleich Pisa 03 - Wanka
تصویر: dpa - Report

Geißler کے مطابق جرمنی میں ایک اوراہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے اسکولوں میں طالبعلموں کے فروغ کے کلچر کا فقدان پایا جاتا ہے۔ جرمن اسکولوں کا نظام اس طرح کا ہے کہ اس میں چنندہ ، تیز اور قابل بچوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور انکے پاس مواقعے بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں جبکہ جو بچے کمزور ہوتے ہیں یا جنہیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے انہیں جمنازیم سے نکال کر ریال اسکول اور یا بنیادی اسکول میں بھیج دیا جاتا ہے۔

Latein-Unterricht in Bremen
ایک جرمن پرائمری اسکول کے کلاس روم کا منظرتصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb

جرمنی میں ہونے والی متعدد ریسرچ یہ بتاتی ہیں کہ یہاں بچوں کی کارکردگی اور تعلیمی صلاحیتوں کو نہیں بلکہ انکے پس منظر یعنی انکا تعلق جس معاشرے اور ثقافت سے ہوتا ہے، انکے ساتھ ان بنیادوں پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب تارکین وطن گھرانوں کے بچے خاص طور پر لڑکے ایک تو تعلیمی کارکردگی میں اکثر کمزور ثابت ہوتے ہیں دوسرے یو کہ انکا رویہ غیر مناسب ہوتا ہے۔ اکثر اسکولوں میں یہ لڑکے بدتمیزی اور جھوٹا موٹ کا رعب جتانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اساتذہ اور دیگر طالبعلم بہت نالاں رہتے ہیں۔

اس ضمن میں جرمن اسکولوں میں والدین کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے ایک پیش قدمی شروع کی گئی ہے۔ Parents day پر والدین کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ اسکول انتظامیہ اوراساتذہ براہ راست بچوں کے والدین سے انکی کمزوریوں، خامیوں اور انکے رویے کے بارے میں کھل کر بات کر سکیں۔ تارکین وطن گھرانوں کے طالبعلموں کی مائیں تو اس پیش قدمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں تاہم انکے والد بہت کم ہی اس میں حصہ لیتے ہیں۔ اس سے اسکول انتظامیہ کو یہ تاثر ملتا ہے کہ غیر ملکی بچوں کے باپ اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ جن اسکولوں کی انتظامیہ اساتذہ اور وہاں زیر تعلیم بچوں کے والدین کے مابین بہتر اشتراک عمل اور باہمی صلاح مشورے سے کام ہوتا ہے وہاں کے طالبعلموں کی تعلیم اور تربیت دونوں کے فروغ میں بہت مدد ملتی ہے اور اسکا فائدہ سب سے زیادہ اسکول طلبا کو پہنچتا ہے۔