1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں بیس ترک شہریوں کے خلاف جاسوسی کے شبے میں تحقیقات

مقبول ملک
6 اپریل 2017

جرمن حکام بیس ایسے ترک شہریوں کے خلاف تحقیقات کر رہے ہیں جن پر جرمنی میں جاسوسی کرنے کا شبہ ہے۔ اخبار ’دی وَیلٹ‘ کے مطابق یہ بات برلن کی وفاقی پارلیمان میں خود میرکل حکومت کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں بتائی گئی۔

https://p.dw.com/p/2an1z
Deutschland DITIB-Moschee Fürthen
جرمن شہر فیورتھن کی اس مسجد کے امام کے فلیٹ پر بھی پولیس نے چھاپہ مارا تھاتصویر: picture alliance/dpa/T. Frey

جرمن دارالحکومت برلن سے جمعرات پانچ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق جریدے ’دی وَیلٹ‘ نے اپنی آج کی اشاعت میں لکھا ہے کہ اس بارے میں بنڈس ٹاگ کہلانے والی وفاقی پارلیمان میں ایک سوال بائیں بازو کی جماعت ’دی لِنکے‘ کے ایک رکن کی طرف سے پوچھا گیا تھا، جس پر چانسلر میرکل کی حکومت کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ اس وقت ملک میں بیس ترک شہری ایسے ہیں، جن کے خلاف جرمنی میں مبینہ جاسوسی کے شبے میں چھان بین جاری ہے۔

Deutschland Bundeskriminalamt BKA
جرائم کی تحقیقات کا وفاقی جرمن ادارہ بی کے اے جرمنی میں کئی ترک باشندوں کے خلاف مبینہ جاسوسی کے شبے میں چھان بین جاری رکھے ہوئے ہےتصویر: picture-alliance/dpa/F. von Erichsen

جرمنی اور ترکی دونوں ہی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ہیں لیکن انقرہ اور برلن کے مابین تعلقات ترکی میں عنقریب ہونے والے اس آئینی ریفرنڈم کے پیش منظر میں کافی کشیدہ ہو چکے ہیں، جس کے ذریعے موجودہ ترک حکومت ملک میں صدارتی جمہوری نظام متعارف کرانا چاہتی ہے۔ اس ریفرنڈم کی کامیابی کی صورت میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو بے پناہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔

صدر ایردوآن اور انقرہ میں موجودہ وزیر اعظم بن علی یلدرم کی حکومت چاہتے تھے کہ اس ریفرنڈم کے لیے ترک نژاد باشندوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین کے جرمنی، آسٹریا اور ہالینڈ جیسے ممالک میں سیاسی جلسے منعقد کیے جائیں، جن سے ترک حکومتی وزراء کو خطاب کرنا تھا۔ لیکن متعلقہ یورپی حکومتوں نے ان جلسوں میں ترک وزراء کو شرکت کرنے سے روک دیا تھا، جس کے بعد خاص طور پر جرمنی میں، جہاں کئی ملین ترک نژاد باشندے آباد ہیں، حکمرانوں کو ترک صدر کی طرف سے یہ الزامات بھی سننا پڑے تھے کہ موجودہ جرمن حکومت مبینہ طور پر نازی دور جیسے طریقے اپنائے ہوئے ہے۔ اس پر انقرہ اور برلن کے مابین کشیدگی اور زیادہ ہو گئی تھی۔

جرمنی میں وفاقی دفتر استغاثہ نے گزشتہ ماہ مارچ ہی میں  کہہ دیا تھا کہ اس کی طرف سے ملک میں ترکی کی طرف سے چلائے جانے والی ایک مبینہ جاسوسی نیٹ ورک کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

Bildkombo Recep Tayyip Erdogan und Fethullah Gülen
ترک صدر ایردوآن، بائیں، کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے کہ گزشتہ برس کی ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے فتح اللہ گولن، دائیں، کا ہاتھ تھاتصویر: Links: picture-alliance/dpa/AP/Pool // Rechts: Reuters/Handout

اس بارے میں جرمن میڈیا رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جرمن حکام ملک میں جس ترک ادارے کی طرف سے مبینہ جاسوسی کی چھان بین کر رہے ہیں، وہ ٹرکش انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی ٹی (MIT) ہے، جو جرمنی میں فتح اللہ گولن کے مشتبہ حامیوں کے خلاف جاسوسی کر رہی تھی۔ فتح اللہ گولن ایک ایسے ترک مسلم مبلغ ہیں، جو امریکا میں قیام پذیر ہیں اور جن پر انقرہ حکومت ترکی میں اپنے حامیوں کے ذریعے ’دہشت گردی‘ کا الزام عائد کرتی ہے۔

ترک حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ گزشتہ برس جولائی میں ترکی میں فوجی بغاوت کی جو ناکام کوشش کی گئی تھی، وہ بھی فتح اللہ گولن ہی کے ایماء پر کی گئی تھی۔ گولن البتہ اپنے خلاف اس الزام کی بھی تردید کرتے ہیں۔

جرمن جریدے ’دی وَیلٹ‘ کے مطابق میرکل حکومت کی طرف سے بنڈس ٹاگ کو بتایا گیا کہ اس وقت بیس ایسے ترک باشندوں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں، جن پر شبہ ہے کہ وہ ترک حکومت کے ایماء پر جرمنی میں خفیہ ایجنٹوں کے طور پر سرگرمیوں کے مرتکب ہوئے۔

اسی سال فروری میں جرمن پولیس نے ترک مسلمانوں کی مساجد کے چار ایسے آئمہ کی رہائش گاہوں پر چھاپے بھی مارے تھے، جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ مشتبہ طور پر ترک حکومت کے لیے گولن کے حامیوں کی جاسوسی میں مصروف تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں